ہفتہ، 9 جون، 2018

میرپورخاص سے میرپورخاص تک . چوتھی قسط DUAAGO#

زندگی کا سفر . چوتھی قسط . ڈاکٹر صابر حسین خان

ہماری نسل نے ٹانگے کے پہیوں کا گھومنا بھی دیکھا ہے اور ٹانگے کی سواری بھی کی ہے . اور پھر پی تھری کمپیوٹر کے اسکرین سے لے کر اینڈرائیڈ فون کے ایل ای ڈی اسکرین پر انٹرنیٹ اور گوگل کے گھومتے دائرے بھی دیکھے ہیں .
ہماری نسل نے الف لیلہ اور طلسم ہوش ربا پڑھنے کے ساتھ ساتھ ھیری پوٹر اور لارڈز آف دی رنگز جیسی فلمیں بھی دیکھی ہیں . پیری میسن اور ابن صفی سے لے کر جان گراشم , جیفری آرچر اور ڈین براؤن تک کی تخلیقات کا مطالعہ کیا ہے . ٹیسٹ میچ کے صبر آزما چھ دنوں کی ریڈیو کمنٹری سننے کے ساتھ ساتھ کیری پیکر کی رنگا رنگ کرکٹ سے لے کر آج کے ٹی ٹوئینٹی کے چار گھنٹوں کی گہما گہمی اور ہنگاموں میں بھی دل لگایا ہے .
اتنا تنوع , اتنا تضاد , اتنی رنگا رنگی , اتنی ہلچل , اتنی سست روی , اتنی تیزی , اتنی گھمن گھیریاں شاید ہی انسانی تاریخ کی کسی اورنسل نے دیکھی اور برتی ہوں .
زندگی کا سفر جب اس طرح کا ہو کہ ناولوں اور ڈراموں اور فلموں میں جو پڑھا اور دیکھا ہو , وہ سب کا سب ایک عمر میں آ کے حقیقی زندگی کا حصہ بن جائے تو ایک فرد ہو یا پوری کی پوری نسل انسانی , سب کی ذہنی اور قلبی ماہئیت پوری کی پوری بدل کے رہ جاتی ہے . ہم اپنے اندر کے سفر کے تغیر اور طوفان کو روک نہیں سکتے . اور ہم پورے کے پورے بدل جاتے ہیں . اور پھر اس تبدیلی کی سزا ہمارے ساتھ ہماری نئی نسل کو ملنا شروع ہو جاتی ہے .
میں اپنے بیٹے کو کیا بتاتا کہ سائینس اور ٹیکنالوجی کے موجودہ تیز رفتار دور میں دنیا اس بری طرح سمٹ رہی ہے کہ میرے اور اس کے اسکول اور میرے اور اس کے تعلیمی نصاب میں بھی اس طرح کا سکڑاو آ گیا ہے کہ اب کم سے کم اس کی نسل کسی پھیلاؤ کو نہیں

دیکھ سکے گی . اور آج کی نسل کیا , اب شاید ہی کوئی آنے والی نسل ان باتوں , ان یادوں کا ذائقہ چکھ پائے گی جو ہماری نسل نے اپنے بچپن اور لڑکپن میں اپنی زندگی کے سفر میں اپنے ذہن کے نہاں خانوں میں جمع کی تھیں .
میں کیسے اپنے بیٹے اور اس کی نسل کے اور بچوں کو بتا پاوں گا کہ اکیلے گھر کے سناٹے میں , تن و تنہا رات رات بھر جاگ کے آگ کا دریا اور راجہ گدھ اور دی ڈریم مرچنٹس جیسی کتابیں پڑھنا اور سوتے جاگتے خواب دیکھنا دل , دماغ اور روح پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے . اور وہ بھی اس وقت جب عمر بیس سال کی ہو اور دل ہجرت کو قبول نہ کر پا رہا ہو . تبدیلی کو قبول نہ کر پا رہا ہو . گھر چھوٹ گیا ہو مگر گھر سے جڑی جڑیں نہ کٹ پا رہی ہوں .
یادوں کے یہ سائے اس وقت بدلی بن کے آنکھوں میں اتر رہے تھے جب میں نیچے کھڑے ہو کر بیٹے کو اوپری منزل کا وہ گھر دکھا رہا تھا , نشتر آباد کے محلے میں , جہاں دادی , دادا اور ریحانہ پھوپھو کے کے ساتھ زندگی کے سفر کے پانچ خوبصورت ترین سال گزرے تھے . تیرہ سال کی عمر سے اٹھارہ سال کی عمر تک کے . جہاں میرے خوابوں نے خراماں خراماں گھٹنوں کے بل چلنا شروع کیا تھا . خواب تو سب دیکھتے ہیں . جاگتی آنکھوں کے خواب . مگر خوابوں کی پرورش اسی زمین پر ہو سکتی ہے , جس پہ محبت , شفقت اور تربیت کا گھنا سایہ ہو . میری زندگی کے سفر
میں قدرت نے اگر ان تین افراد کی محبتوں کی آخر سانس تک نہ ختم ہونے والی روشنی اور توانائی نہ رکھی ہوتی تو شاید نہ میں کبھی کوئی خواب دیکھ سکتا نہ کتاب اور قلم سے رشتہ جوڑ سکتا . ایک بچے کے خوابوں کو پروان چڑھانے کے لیئے ایک قبیلے کی ضرورت ہوتی ہے . اور آج کل سائینسی سہولیات سے بھرپور مصروف دور میں خاندان اور قبیلے کا شیرازہ بکھر چکا ہے .
جن آنکھوں کی محبت بھری سختی نے بچوں کو محض گھور کر راہ راست پر رکھنا ہوتا ہے , وہ آنکھیں ٹی وی کے اسکرین پر ہیں . جن ہاتھوں نے بچوں کا ہاتھ پکڑ کر ان کو کھیلنا سکھانا ہے , ان ہاتھوں میں موبائل فون ہیں . اس صورت آج کی نسل کا کتاب و قلم سے تو کیا , زندگی کے سفر سے بھی کوئی ناطہ نہیں بن سکتا .
آج کی نسل کا ہر تعلق , ہر ناطہ سطحی اور ڈس پوزیبل ہے . اور یہ ایپروچ کچھ جینیاتی ہے اور کچھ اس میں ہماری ٹریننگ کا حصہ ہے . ہم لوگ تو ایک تعلق , ایک رشتے , ایک کتاب , ایک کھیل , ایک مشغلے سے خود کو اس طرح باندھنے اور باندھے رکھنے کے عادی تھے کہ آج تک بنا کسی غرض کے اپنی کمٹ منٹ نبھائے جا رہے ہیں . اپنے اپنے بے پتوں کے شجر کو بے بنیاد آس اور امید کے سہارے پانی دئیے جا رہے ہیں .  چالیس سال قبل چھوڑے ہوئے شہر کے یوں ہی بنا کسی وجہ کے بار بار چکر لگانا کمٹ منٹ کی وحشتوں کا وہ زاویہ ہے جسے نہ سمجھا جا سکتا ہے , نہ سمجھایا جا سکتا ہے .
اس طرح کے تعلق کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے . اور محسوس بھی وہی کر سکتے ہیں جن کو خود بھرے پرے گھر اور محبتوں کے سایہ در شجر چھوڑ کے ہجرت کرنی پڑی ہو .
اپنی توانائیاں ری چارج کرنے کے ساتھ ساتھ میرا ارادہ بچوں کو بھی اپنے چھوٹے سے شہر کے بڑے دل والوں سے ملوانا تھا .

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں