اتوار، 3 جون، 2018

میرپورخاص سے میرپورخاص تک . تیسری قسط DUAAGO#

زندگی کا سفر . تیسری قسط . ڈاکٹر صابر حسین خان

رات میں, تاریکی میں, اندھیرے میں تو ہر شے کی شکل اور ماہیت بدل جاتی ہے . دن کی روشنی میں خط و خال کا صحیح پتہ چلتا ہے . مگر مجھے پتہ تھا کہ اسکول کے حوالے سے میں اپنے بیٹے کی بجائے خود کو ایسا جواز دے رہا ہوں جو شاید دن کی روشنی میں اور شرمندہ ہو جائے . بیٹا مستقل اپنے چار سو گز کی بند بلڈنگ کے اسکول کو , میرپورخاص کے اپنے زمانے کے سب سے اچھے چھ ہزار گز کے رقبے پر پھیلے اسکول سے کمپیئر کر رہا تھا اور اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اسکول اتنے بڑے بھی ہو سکتے ہیں .
آج کل کے بچوں کو نہیں اندازہ کہ چالیس پینتالیس سال پہلے کے سرکاری اسکول کیسے ہوتے تھے . اس وقت کے اساتذہ کیسے ہوتے تھے . اس وقت کی تعلیم , تربیت اور خاندان کا نظم و ضبط کیسا ہوتا تھا .
اس رات کے ان لمحات میں مجھے اس زمانے کا کراچی کا ایک اور بڑا اسکول یاد آ گیا . جہاں میں نے تین سال گزارے تھے . چھٹی , ساتویں اور آٹھویں جماعت میں . بدری سیکنڈری اسکول . بلاک سی . نارتھ ناظم آباد . اس وقت میری یہی عمر تھی جو آج لگ بھگ میرے بیٹے کی ہے . وہ اسکول بھی کھلا اور بڑا اور روشن تھا . آگے پیچھے گراونڈز کے ساتھ . وسیع اور سلیقے سے بنی بلڈنگ . پائوں کے ایکو پنکچر علاج کے لیئے پانچویں کلاس کے بعد ابو نے کراچی بھیج دیا تھا . کچھ دن ابو کے دوست بخاری صاحب کے گھر رہا دادی کے ساتھ . اس وقت یہ پتہ نہیں تھا کہ بائیس سال بعد زندگی کا سفر پھر اسی محلے میں لے آئے گا عین بخاری صاحب کے گھر کے پاس . پھر کچھ دن منی آپا کے گھر رہائش رہی . ابو کی کزن کے گھر . وہ دن بھی آج تک یاد ہیں . نیا تعلیمی سال شروع ہو چکا تھا اور میں منی آپا کے گھر کے گیٹ سے باہر کھڑا ہو کر بچوں کو اسکول جاتے دیکھتا تھا اور روتا تھا کہ میرا کسی اسکول میں داخلہ نہیں ہو پایا . میں کیسے اور کب اسکول جا پاوں گا .
زندگی کے سفر نے تو آگے بڑھنا ہوتا,ہے . آگے بڑھانا ہوتا ہے . قدرت کو رونا پسند نہیں آیا . اور چچا کا ٹرانسفر حیدرآباد سے کراچی ہوگیا . اس وقت اس محکمے کا نام ٹیلیفون اینڈ ٹیلیگراف تھا .  T & T .
جس میں چچا ڈویژنل انجینیئر کے عہدے پر فائز تھے . انہوں نے بلاک سی نارتھ ناظم آباد میں گھر کرائے پر لیا اور میں دادا اور دادی کے ساتھ وہاں چلا گیا . چچا نے اس گھر کے پاس ہی بدری اسکول میں چھٹی جماعت میں داخلہ کرادیا . اسکول کی اس شرط کے ساتھ کہ نیا تعلیمی سال شروع ہوئے چار ماہ گزر چکے ہیں اور اگر بچے نے ششماہی امتحان میں اچھے نمبر نہیں لئیے تو اسے پانچویں جماعت میں بھیج دیا جائے گا اور دوسرا یہ کہ کلاس میں بچے زیادہ ہیں اور بینچیں کم تو آپ نے اسکول کو ایک نئی بینچ دینی ہوگی . جب تک بچے نے زمین پر بیٹھنا ہوگا .
زمین پر بیٹھ کر , ششماہی امتحان میں اچھے نمبر لئیے تو نئی بنچ بن کے آچکی تھی . جو پھر آٹھویں جماعت تک میرے ساتھ رہی . اور پھر نویں جماعت کمپری ھینسو ھائی اسکول میرپورخاص سے زندگی کے سفر کا ایک نیا موڑ شروع ہو گیا .تیسری, چوتھی,اور پانچویں کلاس کا اسکول آج بھی بظاہر اسی شان و شوکت کے ساتھ باہر سے نظر آتا ہے .
مرحبا ہوٹل کے کمرے کی کھڑکی سے اپنے پرائمری اسکول کی بڑی بلڈنگ اور پلے گراؤنڈ کو کئی کئی بار کافی دیر دیر تک دیکھتا رہا مگر وقت کی کمی نے سینٹ مائیکل کانونٹ اسکول کے اندر جانے نہ دیا . زندگی کے موڑ در موڑ مستقل سفر کے اندرونی اور بیرونی زاویوں کے جھٹکوں کا سب سے بڑا نقصان یہی ہوتا ہے کہ ہم سے ہماری فراغت چھن جاتی ہے اور قدرت ہمارے ہاتھوں میں مصروفیت کے جھنجھنے پکڑا دیتی ہے . اور مصروفیت بھی کیسی جو ہماری روح کی بیچینی اور وحشت میں اضافہ کرتی چلی جائے . ہماری نسل کے پاس کم از کم بھاری بھرکم رنگ رنگ کی تہوں میں لپٹا ماضی کا محل ہے . جس کی ہر منزل پر ہمارے لئیے ہمارے حال کی تھکن اتارنے کو کوئی خوشگوار یاد موجود ہے .
بھیانک المیے سے دوچار تو ہماری نئی نسل اور ہمارے بچے ہیں . بند کمروں میں رہنے , پروان چڑھنے , اور تعلیم کے نام پر وہ کچھ پڑھنے والے جس کا عملی زندگی سے کبھی کوئی تعلق نہ بن پائے . گراونڈز اور پارکس میں دوپہریں اور شامیں اور راتیں گزار کر تھک کر گھر واپس آنے کی بجائے چھ چھ گھنٹے موبائیل اور آئ پیڈ اور ٹی وی پر اپنا وقت اپنی توانائی اپنا ذہن کھپانے والے بچوں کی یہ نئی نسل , جس میں میرا بیٹا بھی شامل ہے , اپنے حال میں ایسا کچھ نہیں جمع کر پا رہی , ایسا کچھ نہیں کما پا رہی , ایسا کچھ نہیں دیکھ پا رہی , ایسا کچھ نہیں سیکھ پا رہی , جو زندگی کے سفر میں اس کا زاد راہ بن سکے . دکھ,تکلیف, تھکن اور تنہائی کے جان لیوا لمحات میں خوشگوار یادوں کی برسات کی صورت برس سکے . اور ماضی کے چراغوں کی روشنی میں مستقبل کے راستوں اور منزلوں کے نشان دکھا سکے .
قصور ہمارا ہے . ہمارے بچوں کا نہیں . قصور ہماری نسل کا ہے . نئی نسل کا نہیں .

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں