منگل، 5 مارچ، 2019

غزل

"غزل"
                            (5.10.83)
                "ڈاکٹر صابر حسین خان"

سر شام پرندے جب اپنے گھروں کو پلٹ گئے
تنہائی کے بال ویر گھر کی دیواروں سے لپٹ گئے

دل کے میکدے میں یادوں کی شمع جونہی جلی
جو آنکھوں کے بھرے جام تھے وہ سارے الٹ گئے

زرد موسم کی نیلگوں پر چھائیاں جو نہی اوجھل ہوئیں
ستاروں کے سائے کناروں کے ساتھ چمٹ گئے

دل نے جونہی کہا کہ گھر بنایا چاہیے
میرے مکاں کے بام و دیوار و دو سمٹ گئے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں