جمعہ، 8 مارچ، 2019

ایک بار کا ذکر ہے

"ایک بار کا ذکر ہے"
              "ڈاکٹر صابر حسین خان"

گرمیوں کی تنہا شاموں میں
بند ہوا کے بوجھ تلے
دل کہتا ہے دبے دبے لفظوں
وہ دن بھی تھے جب
گرمیوں کے موسم میں
سب کچھ ایسا ہی ہوتا تھا
ہوا بھی بند ہوتی تھی
اندھیرا بھی ہوا کرتا تھا
یونہی سب
بولائے بولائے پھرتے تھے
لیکن
تنہائی کا شور اتنا نہیں تھا
جی اداس بھی ہوا کرتا تھا
لیکن
من پہ بوجھ اتنا نہیں تھا
گھڑی کی سوئیاں
یونہی گھوما کرتی تھیں لیکن
وقت کاٹنا
اتنا مشکل نہیں تھا
موسم اتنا
بے اماں نہیں تھا
آسماں خشک رہتا تھا مگر
نامہرباں نہیں تھا
دیواروں کے بیچ اتنا
فاصلہ نہیں تھا
چہروں کی بھیڑ میں ہر فرد
اتنا اکیلا نہیں تھا
ہر کسی کا دل اداس
اتنا زیادہ نہیں تھا
ہر بدن پر درد کا
لبادہ نہیں تھا
یونہی چلتے پھرتے
کانوں میں پڑتے
محبت کے دو بول
پیاس بجھا دیتے تھے
یوں دریا بھر پانی پی کر بھی
ھر کوئی اتنا پیاسا نہیں تھا
گو ھر آنگن کو ستارہ میسر نہیں تھا
ھر من میں اتنا اندھیرا نہیں تھا
دل سبھی کے دھڑکا کرتے تھے
تب بھی
ھر دھڑکن پہ ھر کوئی
یوں سہمتا نہیں تھا
عجیب رنگ ہے آج کے وقت کا
عجیب ڈھنگ ہیں آج کے موسم میں
وہ تو سب ہے جو پہلے
سوچ میں بھی نہیں تھا
مگر فطری کچھ بھی نہیں
اصلی کچھ بھی نہیں
ایسا کبھی نہیں
ایسا کچھ بھی نہیں
کہیں بھی ایسا نہیں جو
اندر کی آگ بجھا دے
ذہن کی تپتی زمین پہ
ابر کرم برسا دے
ایکبار پھر ہم کو
جینا سکھا دے
جینے کا حوصلہ دلا دے
موسم کے سب رنگ
پھر سے چمکا دے
دل کو دل سے جوڑ دے
اور ہسننا سکھا دے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں