منگل، 5 مارچ، 2019

صبح فروزاں

"صبح فروزاں"
                       (12.12.83)
                  "ڈاکٹر صابر حسین خان"

وقت کی سرد ہواؤں میں ٹھٹھڑتے ہوئے لوگو!
ناامیدی کا کفن پہن کر
مایوسی کی قبروں میں اترنے سے پہلے
ذرا رکو! ……اور ……دیکھو !
ایک ملگجا ٹمٹماتا ہوا سایہ
شبنمی کرنوں کا لبادہ اوڑھے
جگمگاتے سرخ شعلوں کا تاج پہنے
مشرق  کے بدن کو چیرتا ہوا
تیرگی کی چادروں کو تہہ کرتا ہوا
اپنے لانبے نیلی رگوں سے چمکتے ہاتھ میں یقیں کی مہکتی مشعل کو تھام کر
گماں کے شہر کی زرد فصیلوں کے لیئے
امیدوں کی سبز روشنیوں کے لئیے
گہرا نقدر تحفہ لیکر آرہا ہے
سنو!
کہ سایہ دل کے مقفل زنگ آلود کو اڑوں پر
شمشیر فکر سے دستک دینے کو ہے
سماعتوں میں نئی آہٹیں گونجنے کو ہیں
بصارتوں میں نئی تصویریں چمکنے کو ہیں
آج اور کل کے سبھی لمحے
غم فردا سے نجات پانے کو ہیں
آج اور کل کے سبھی لمحے
غم فردا سے نجات پانے کو ہیں
میزان عدل لٹکنے والی ہے
چرخ سیاہ فام کا فیصلہ ہونے کو ہے
موت سے پہلے ہی مرجانے کی خواہش میں
جئیے جانے والے لوگو!
مانا کہ کئی صدیوں کے انتظار کی تھکن
تمھارے سروں پر پھیلی ہوئی ہے
یہ بھی مانا کہ تم نے سدا
قطرہ بہ قطرہ اپنے لہو سے
لمحہ بہ لمحہ اپنی زندگی کی آبیاری کی ہے
مگر آج کی باگ تمھارے ہاتھ میں ہے
خوش آئندہ وروح افزا صبح فروزاں کے
استقبال کے لیئے انتظار کی چند اور
ساعتوں کی مالا اپنے گلے میں ڈال لو
کہ تمھارے سفر کی اندھیری رات
اب کچھ ہی دیر میں ڈھکنے کو ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں