منگل، 5 مارچ، 2019

غزل

"غزل"
                       (27.10.83)
                 "ڈاکٹر صابر حسین خان"

اپنی وحشتیں چھپا کر میری مہک کو گلابوں میں دیکھنا
ایک بھولے ہوئے چہرے کو اب کبھی کبھی خوابوں میں دیکھنا

میرا حال جاننے کیلئے مجھ سے ملنے کی کوئی ضرورت نہیں
میرے آج اور کل تم اپنے ماضی کی کتابوں میں دیکھنا

تمھارے عشق میں جیتے جی جل جانے کا یہ انعام ہے مجمکو
تمھارے چہرے کو چاند میں آنکھوں کو ستاروں میں دیکھنا

وہ جو قربتوں کا ایک سبز موسم تھا زمانے کی نذر ہوا
تمھارے عکس کی کوئل کو اب پیپل وچناروں میں دیکھنا

رات کے پچھلے پہر دریا کے کنارے جو گھبرا جڑا تھا
اسکا سبز لہو اس شہر کے تپتے ہوئے مکانوں میں دیکھنا

پوری دنیا سر پر پھیلی بے ربط باتوں کے طویل سلسلے میں
جو بھی ان کہی رہ گئی وہ آنکھوں کے آئینوں میں دیکھنا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں