بدھ، 6 مارچ، 2019

رکھ رکھاؤ

"رکھ رکھاؤ"
                        (11.9.89)
                   "ڈاکٹر صابر حسین خان"

اتنی سب باتوں کے باوجود
وہ باتیں جو ہم نے تنہائی میں
بیٹھ کر آپنا دکھ بھلانے کیلئے کی تھیں
تم آج ھنس کر کہتی ہو
ہم دونوں میں کبھی محبت
رہی ہی نہیں
ہم دونوں کے راستے تو
شروع ہی سے
جدا تھے
اور وہ جو ہم دونوں کے بین
تعلق تھا, الفت تھی
وہ سب رکھ رکھاؤ
اور رواداری کا حصہ تھا
وہ راتیں جو ہم دونوں نے
ہاتھوں,آنکھوں اور زلفوں کے
سائے میں ساتھ بتائی تھیں
وہ زرد دوپہریں
جو ہماری سانسوں کی حدت سے
پگھل گئی تھیں
وہ دوپہریں
وہ شامیں, وہ راتیں
سب کی سب
مروت کا شاخسانہ تھیں
خوش اطواری سے
وقت گزارنے کا بہانہ تھیں
وہ سب باتیں
ان باتوں کے سوا
کچھ اور نہ تھیں
وہ شامیں ہوا ہوئیں
وہ راتیں گزر گئیں
وہ باتیں بیت چکیں
جو تعلق تھا ختم ہوا
اب ان باتوں کو دہرانے سے
آنسو بہانے سے
یادوں کے دیپ جلانے
کیا حاصل
چاہتوں کا موسم
پت جھڑ کی نذر ہوا
رفافتوں کا سانپ گزر گیا
اب تم کیوں
لکیریں پیٹتے ہو
جدائی کا رونا روتے ہو
ہماری نصیب میں بس
اتنا ہی ساتھ لکھا تھا
پھر کس چیز کا گلہ کرتے ہو

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں