منگل، 5 مارچ، 2019

سپنا

"سپنا"
                         (29.9.83)
                 "ڈاکٹر صابر حسین خان"

چاندنی رات میں جب چاند نے
آسماں سے زمیں تک
چاندی کی چادر بچھائی تھی
چپکے سے میرے خوابوں میں آکر
اس نے ہلچل مچائی تھی
عجیب سماں تھا وہ کہ
پل بھر میں برسوں کی شناسائی تھی
مجھے حیرت تھی کہ کس طرح
شبنمی رات کی شوخی
ساری آس نے پائی تھی
جو نہی آنکھیں ملیں
حیانے دامن بڑھایا
پھر دھیرے سے اس نے
پلکوں کی چلمن گرائی تھی
میں شاعر ہوں مگر اس رات تو
اس کے گلاب لبوں نے مہکتی غزل گائی تھی
حنا سے کھنکتے ہاتھوں سے
سرخ و سفید آنچل کو
پیشانی پہ لاتے ہوئے وہ دفعتا شرمائی تھی
اور پھر جھیرے شوق کی بےتابی دیکھی تو
چہرے پہ زلفیں بکھیر کر مسکرائی تھی
مگر تبسم ناز تو لمحے بھر کا تھا
کہ جونہی چاند کو بادلوں نے گھیرا
وہ لجا کے اٹھی تھی اور گھبرائی تھی
رخ زیبا کی کیا خوب رونمائی تھی
بادلوں کے سائے میں لپٹی ہوئی
چاروں طرف خوبصورت تنہائی تھی
مگر یہ سب ایک سپنا تھا دلربا سا
اور سوچ اپنی تماشائی تھی
برہم ہوگئی صبح ہوتے ہی
پچھلے پہر خیالوں کی جو بزم جمائی تھی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں