بدھ، 6 مارچ، 2019

سفر مسلسل

"سفر مسلسل"
                           (1.8.89)
                 "ڈاکٹر صابر حسین خان"

یوں کب تک
پھرتے رہوگے آوارہ سڑکوں پر
تم اپنی منتشر سوچوں کو آخر
کسی ایک نقطے پر
مجتمع کیوں نہیں کرتے
آخر کب تک تم اس طرح
کتابوں اور بادلوں اور لوگوں سے
اپنا ایندھن حاصل کروگے
کیا تم ابھی تک تھکے نہیں
کیا ابھی تک
تمھارے فون میں
سر پھری ہوائیں تیر رہی ہیں
سفر در سفر کے بیچ آفر
ایک لمحہ آرام کا بھی تو آتا ہے
کیا تم سکون کے متلاشی نہیں
کیا تمھارا دل نہیں چاہتا
کہ کوئی زلفوں کے سائے میں
تمھاری جاں کو سمیٹ لے
اور تمھیں
فکر امروز و فردا سے
نجات دلادے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں