منگل، 5 مارچ، 2019

غزل

"غزل"
                       (29.9.83)
                   "ڈاکٹر صابر حسین خان"

میرے مکاں کی دیواروں پر تو اداسی کا سایہ ہے
ایسے سمے پہ کس نے امیدوں کا دیا جلایا ہے

ابھی کچھ دیر پہلے یاں تنہائی کا اندھیرا تھا
اور ابھی ابھی تمھارا خیال روشنی کا ابر لایا ہے

وہ ایک شخص کہ جس سے کبھی تھیں شکایتیں بہت
دور ہوگیا تو محسوس ہوئیں اسکی ضرورتیں بہت

وہ مجھے جدائیوں کے موسم کی نوید دیتا رہا
اور میں چپ کہ مجھ پر اسکی تھیں عنایتیں بہت

جس کو اگلی ہی صبح بچھڑ کر چلا جانا تھا
وہ شخص ساری شب سناتا رہا حکایتیں بہت

بارشوں کے موسم میں بھی میں رو نہ سکا
میری آنکھوں کو یاد رہیں اسکی ہدایتیں بہت

لوگ کہتے رہے مگر میں نے نہ مانا کبھی
یہ اور بات کہ بعد میں مجھے ہوئیں ندامتیں بہت

میری محبتیں سمیٹ کر چپکے سے وہ چلا گیا
مول لیتا رہا میں جس کے لیئے عداوتیں بہت

وہ آنکھوں کی مختصر کہانیاں بھی رخصت ہوگئیں
میرے لیئے غنیمت تھیں جن کی بلاغتیں بہت

وہ بازی ادھوری چھوڑ کر اٹھ گیا تو کیا ہوا
میرے عشق میں بھی تو چھپی تھیں سیاستیں بہت

شاموں تک پھیلی ہوئی محبتیں میں نہیں مانگتا
غنیمتدس لمحے بھر کی مجھے رفاقتیں بہت

وہ مجھ کو محبتوں کی نئی زباں سکھا گیا
جس کے ہر انداز میں چھپی تھیں قدامتیں بہت

وہ کیسے ہر محاذ پر مجھے شکست دیتا رہا
اس کی گفتگو میں تو رچی بسی تھیں نزاکتیں بہت

گو آنکھیں تو بس پل بھر کیلئے ملی تھیں مگر
اس ایک پل میں مجھ پر گزر گئیں قیامتیں بہت

اس کی قربتیں کیوں کر ہوتیں میسر مجھے
جس کو سوچنے کیلئے کرنی پڑی ریافتیں بہت

میں اسکی کوئی بھی بات کبھی جھٹلا نہ سکا
اسکی نگاہوں میں میں نے دیکھی ہیں کرامتیں بہت

میں اپنے عشق کی صداقتوں پہ یقیں کرتا رہا
اسکے گماں میں, میں نے دیکھی نہیں حقیقتیں بہت

اسکی آنکھوں میں,  میں نے کبھی تشنگی نہ دیکھی
اسکی خواہشوں میں سدا رہی تھیں متانتیں بہت

اسکی آنکھیں وہ ان کہی کہانی کہتی ہی رہیں
جس کے ہر اک موڑ پر میں نے دیکھیں علامتیں بہت

وہ اپنی بے اعتنائی کے باوجود مجھے عزیز رہا
میرے نظریوں میں سدا رہی ہیں سلاستیں  بہت

وہ بچھڑ کر مجھے پہچان کا سلیقہ سکھا گیا
میری شبیہ میں اب بسی ہیں اسکی شباعتیں بہت

اس کی کتاب دل دیکھ کر مجھے پچھتانا پڑا
ہر حاشیے میں لکھی ہوئی تھیں عبارتیں بہت

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں