بدھ، 20 مارچ، 2019

21.03.19 DR. SABIR KHAN. New Column/Blog/Article

" دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا " نیا کالم / بلاگ / مضمون ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔ اشفاق بھی رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ۔ اور وہ بھی کیسے ۔ شام مناتے اور منواتے ہوئے ۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگوں کو رنگے ہاتھوں پکڑنا کافی مشکل ہوتا تھا ۔ بہت وقت موقع کا انتظار کرنا پڑتا تھا پھر کہیں جا کر وہ لمحہ ہاتھ آتا تھا جب کوئی رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا تھا ۔ مگر اب سوشل میڈیا نے پکڑ، پکڑائی بہت آسان بنا دی ہے ۔ اب کسی اور کے پکڑنے سے پہلے ہم خود پکڑائی دے دیتے ہیں ۔ اپنے آپ کو رنگے ہاتھوں پکڑوا دیتے ہیں ۔ اپنی جگہ بہ جگہ کی جا بہ جا تصویریں اپ لوڈ کر کے ۔ اپنے حال احوال اور حالات و واقعات کی تفصیل بیان کر کے ۔ اپنی سوچ ، اپنے خیالات ، اپنے جذبات کی عکاسی کر کے ۔ اشفاق کے ساتھ بھی کچھ یوں ہی ہوا ۔ وہ بےچارہ جاتلاں ، میرپور ، آزاد کشمیر سے دس سال بعد میرپورخاص آیا تھا ۔ ہاتھ ملانے کے لئیے ۔ اور حلقہ ارباب ادب نے اس کو شاعر جانتے ، مانتے اور سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ ایک شام منا ڈالی ۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں تھا ۔ مگر اس نے دوران قیام میرپورخاص ہی اپنی شام والی تصویر اپ لوڈ کر ڈالی فیس بک پر ۔ اگلی شام جونہی میری نظر اس کی تصویر پر پڑی تو وہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ۔ اور میں نے اسے فورا فون گھما دیا ۔ اور اس کے ہاتھ ملانے والے ایجنڈے میں دخل اندازی کر بیٹھا ۔ اس کے منصوبے میں کراچی کا وزٹ آخر میں تھا ۔ اور کراچی میں ، مجھ سے ملاقات ، ہاتھ ملانے والے ایجنڈے کی آخری تقریب تھی ۔ لیکن چونکہ اپنی شام منانے اور منوانے والی تصویر نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑوا دیا تھا اور مجھے اس کے میرپورخاص پہنچنے کی اطلاع مل چکی تھی تو کراچی کے حوالے سے اس کا پلان درہم برہم ہو گیا اور اسے مجھ اکیلے کے ساتھ پورے 36 گھنٹے گزارنے پڑ گئے ۔ جبکہ اس کا پروگرام مجھ سے ملاقات کر کے بس ہاتھ ملانا تھا ۔ عبدالرحمان نے میرپورخاص سے اسے روانہ کرتے ہوئے سختی سے تاکید کی تھی کہ صابر بھائی سے سب سے آخر میں ہاتھ ملانے جانا ورنہ پھنس جاو گے ۔ اور عبدالرؤف ایڈووکیٹ نے اسے اپنے ہمراہ لاتے ہوئے دل و جان سے گارنٹی لی تھی کہ وہ اسے ، میرے چنگل میں نہیں پھنسنے دے گا اور ہاتھ ملانے کے کچھ دیر بعد ہی اسے ، اس کے کراچی کے اور دوستوں اور ملنے ملانے والوں سے ہاتھ ملانے لے جائے گا ۔ مگر پروفیسر عبدالرحمان اور ایڈووکیٹ عبدالرؤف ، دونوں کی پلاننگ بھی کام میں نہ آسکی اور بےچارہ اشفاق ، کراچی آنے اور کراچی میں رہنے کے باوجود پورے 36 گھنٹے میرے علاوہ صرف بھائی شبیر قائم خانی اور محمد علی منظر سے ہاتھ ملا سکا ۔ اور وہ بھی اس طرح کہ اسے جب سی ویو گھمانے لے گئے پہلی شام تو واپسی میں بھائی شبیر کا گھر سی ویو کے پاس ہی تھا ۔ تو ان سے اشفاق کے توسط سے میری اور عبدالرؤف کی بھی ملاقات ہو گئی ۔ اور اشفاق نے بھی ان سے باقاعدہ یہ کہہ کر ہاتھ ملایا کہ وہ کشمیر سے کراچی ، بس ان سے ہاتھ ملانے ہی آیا ہے ۔ اور اگلے دن ، بھائی پروفیسر محمد علی منظر کو فون کروا کے کلینک بلوا لیا گیا اور اشفاق سے ان کا ہاتھ ملوا دیا گیا ۔ اور دو تین گھنٹوں کے لئیے ان لوگوں کو علیحدہ کمرے میں بھی بٹھا دیا گیا ۔ میری وجہ سے اشفاق کچھ لوگوں سے ہاتھ ملانے سے محروم بھی رہا مگر مجھ سے جان چھڑاتے ہی اس نے اگلے دس بارہ گھنٹوں میں دو چار اور لوگوں سے ہاتھ ملا ہی لیا اور اگلے دو دنوں میں میرپورخاص واپس پہنچ کر مزید کئی لوگوں سے ہاتھ ملا کر ، اپنے ہاتھ ملانے کی سنچری پوری کر ہی لی ۔ ہاتھ ملنے اور ہاتھ ملانے میں فرق ہوتا ہے ۔ 36 گھنٹوں کی رفاقت کے دوران جب یہ عقدہ کھلا کہ ہر فون کال اور ہر ملنے والے سے اشفاق یہی ایک ڈائیلاگ بار بار بول رہا ہے تو میرے کان ٹھنکے ۔ " ارے بس میں تو بس ہاتھ ملانے کے لئیے آیا ہوں ۔ مجھے تو بس ہاتھ ملانا تھا ۔ نہیں نہیں ، کسی اہتمام کی ضرورت نہیں ، مقصد تو صرف ہاتھ ملانا ہے ۔ بس دو منٹ کے لئیے ہاتھ ملانے آرہا ہوں ۔ " پھر حسب روایت و حسب عادت مجھے اپنی علامیت جھاڑنے کا موقع مل گیا ۔ " ابے بھائی یہ کیا لگا رکھا ہے ۔ ہر ایک کو ، سیاست دانوں کی طرح ٹوپی پہنا رہے ہو ۔ بس ہاتھ ملانا تھا ۔ بس ہاتھ ملانے کے لئیے ملنا تھا ۔ تم کشمیر سے یہاں میرپورخاص اور کشمیر گھومنے اور تفریح کرنے آئے ہو یا جانے پہچانے اور اجنبی لوگوں سے ہاتھ ملانے ؟ ماشااللہ، بیٹا بھی ساتھ آیا ہے تمھارے اور بیوی بھی ۔ تو ان کو بھی تو کچھ گھمانا پھرانا چاہئیے یا تم ہاتھ ہی ملاتے رہوگے سب سے ۔ تمھارے ہاتھ ملانے کے چکر میں یہ دونوں اتنی دور آ کر بھی یوں ہی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اور خالی ہاتھ رہ جائیں گے ۔ تم نے ہزار بار یہ مصرع سنا ہو گا کہ ' دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا ' ، تم کیوں ہر ملنے والے کو یہ بادر کرانا چاہ رہے ہو ۔ تمھارے ہاتھ ملنے اور ملانے کے حوالے سے کچھ لکھنا پڑے گا ۔ تاکہ اگلی بار تم باقاعدہ اور با ضابطہ ملاقاتوں کے لئیے آو ۔ مانا کہ تم تو دل سے ہاتھ ملا رہے ہو مگر یہ بات کہنے کی کہاں ہوتی ہے ۔ ہر بات کہی تھوڑی جاتی ہے ۔ ملو ، جی بھر کے ملو ، سب سے ملو مگر محض ہاتھ ملانے کی نیت سے نہیں ، بلکہ ملاقات کی نیت ، ارادے اور اظہار کے ساتھ ملو ۔ " جب ہم دل سے کسی کے قریب ہوتے ہیں اور اس کے خلوص اور محبت کی دل سے قدر کرتے ہیں تو عبدالرحمان اور اشفاق جیسے دوست ہماری زندگی میں آتے ہیں اور رہتے ہیں ۔ 1980 سے ان دونوں سے محبت ، رفاقت اور دلگیری کا رشتہ قائم ہے اور اس استحکام میں ان دونوں کا زیادہ ہاتھ ہے ۔ دونوں میرے چھوٹے بھائی خالد کے کلاس فیلو تھے اور مجھ سے ایک سال جونئیر تھے ۔ ادب اور احترام سے پیش آتے اور جو کچھ مجھے آتا ، وہ ان دونوں اور ان کے ساتھ اور کئی دوستوں اور ساتھیوں میں ، محبت اور شفقت کے ساتھ بانٹتا رہتا ۔ اشفاق کا شمار لڑکپن کے ان دوستوں میں ہے جن کے پیچھے سائیکل پر بیٹھ کر میرپورخاص کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کا سفر ہوا کرتا تھا ۔ پھر میں کراچی آگیا اور کچھ سالوں بعد اشفاق کے گھر والے بھی میرپورخاص سے اپنے آبائی علاقے میرپور آزاد کشمیر منتقل ہو گئے ۔ ملاقاتوں کا سلسلہ کم سے بہت کم ہوتا گیا ۔ کبھی کبھی ، وہ بھی کئی سالوں کے وقفے کے بعد فون پر رابطہ ہو جاتا ۔ حالیہ ملاقات سے پیشتر ، اشفاق سے آخری ملاقات آٹھ دس سال پہلے ہوئی تھی ۔ اور اس وقت اسی کے توسط سے رفیق نقش سے آخری بار ملاقات ہوئی تھی ۔ کہ کسی کے علم میں نہیں تھا کہ بلوچ خاندان میں پیدا ہونے والا ، اردو زبان پر کمانڈ رکھنے والا ایک شاعر ، نقاد ، ادیب اور اردو کا پروفیسر ، اچانک دوران لیکچر ، حرکت قلب بند ہونے سے اس جہان فانی سے اچانک کوچ کر جائے گا ۔ ایک وقت وہ تھا جب زمانائے طالب علمی میں ، شاعری اور تک بندی کی ابتدا میں ، میں نے اشفاق کو رفیق نقش سے ہاتھ ملوایا تھا اور پھر کچھ عرصے کے بعد میں خود شاعری کا سفر آدھا ادھورا چھوڑ کر نثر کے سفر پر نکل کھڑا ہوا تھا ۔ مگر اشفاق نے شاگردی اور دوستی کا حق ادا کیا اور رفیق نقش کی آخری سانس تک اسکے ساتھ رفاقت نبھاتا رہا ۔ تعلق ، دوستی ، شاگردی ، محبت ، خلوص اور کمٹ منٹ برقرار رکھنے اور نبھانے کے بیج ، اشفاق کی گھٹی میں پڑے ہوئے ہیں ۔ اور ان کی آبیاری کے لئیے اسے ہاتھ ملانے کے لئیے ہی سہی، اپنے حلقہ احباب میں شامل دور دراز کے دوستوں کو پانچ منٹ بھی کیوں نہ دینے پڑیں، اس کا تازہ ترین ٹریلر اس کے تازہ ترین دورہ میرپورخاص و کراچی میں دیکھ لیا ۔ زندگی کے سفر میں ، میں اس خوبی سے خالی ہو چکا ہوں ۔ شاعری کی طرح روایتی سماجی روابط ، رشتے اور تعلقات بنانا اور برقرار رکھنا ، شخصیت و مزاج کے دائرے میں سے کب ، کہاں ، کیوں اور کیسے باہر نکلتے گئے ، کچھ پتہ نہیں چلا ۔ عمر بڑھنے کے ساتھ یہ احساس بھی بڑھا کہ شاعری اپنے بس کا روگ نہیں ہے ۔ اور پھر مزید مطالعہ اور مشاہدے اور حالات و واقعات کے تجزیوں نے یہ بات ثابت بھی کر دی کہ شاعری ، معاشرے کو آج تک کبھی کچھ نہیں دے سکی ۔ ماسوائے وقت کے کچھ خاص لمحات کے ۔ جب انقلابی جدوجہد کا زمانہ ہو اور لوگوں کا لہو گرمانا ہو ۔ عبدالرؤف نے ابھی حالیہ ملاقات میں کہا بھی کہ صابر بھائی آپ کی نثر میں اتنی کتابیں شائع ہو چکی ہیں مگر آپ کا شعری مجموعہ اب تک کیوں نہیں آیا ۔ جبکہ شاعری آپ کی پہلی محبت تھی ۔ دیکھا جائے تو بات اس کی غلط نہیں ہے ۔ 1000 سے زائد شعری کاوشوں میں سے تین چار سو تو ایسی نکل آئیں گی ، جن کو باضابطہ کتابی شکل دی جا سکتی ہے ۔ مگر پھر وہی بات کہ انفرادی دل و خیال کی وارداتوں سے ہم کسی کے قلب و دماغ میں کیسے کوئی باضابطہ تبدیلی لا سکتے ہیں ۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اپنے اپنے وقتوں میں بڑے بڑے شاعر ، اعلی و ارفع شاعری کر گئے اور اساتذہ کے درجے حاصل کر گئے مگر کیا ان کی بہترین شاعری سے کیا کبھی کوئی شخص ایک بہتر زندگی کی طرف آ سکا ۔ یہ اور بات ہے کہ میرے موجودہ کالم/بلاگ/مضمون کا عنوان ہی ایک شعر کا ایک مصرع ہے ۔ یعنی دوسرے نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو مضبوط و مربوط شاعری کی اپنی اہمیت اور افادیت ہے ۔ شرط صرف یہ ہے کہ میری طرح کی تک بندیاں اور نام نہاد نثری شاعری نہ ہو بلکہ اشفاق کی طرح جاندار اور خیال پرور باقاعدہ شاعری ہو ۔ اور یہ بات تو میں بھول ہی گیا تھا کہ ہاتھ ملانے کے چکر میں اشفاق اپنا سرمایہ حیات میرے گھر پہ ہی بھول کر نکل گیا تھا ۔ اس کی برسوں کی ریاضت ایک عدد ڈائری کی شکل میں محفوظ ہے جسے وہ ساتھ لایا تھا ۔ اور ہڑا ہڑی میں جاتے وقت میز پر ہی چھوڑ گیا تھا ۔جسے پانچ دن بعد اس کے کشمیر پہنچنے کے بعد پوسٹ کیا گیا ۔ تاکہ اس کی تخلیقات ، بحفاظت اس تک پہنچ سکیں ۔ انسان کو اپنی تخلیق اپنی ذات سے زیادہ عزیز ہوتی ہے ۔ جیسے میں نے دس گیارہ جگہوں کو بدلنے کے باوجود گزشتہ پینتیس چالیس سالوں سے اپنی دس گیارہ شاعری سے بھری ڈائریاں سنبھال کر رکھی ہوئی ہیں ۔ ہر چند سال بعد ہلہلہ اٹھتا ہے کہ کم از کم ایک کتاب تو شاعری کی چھپوا لینی چاہیے ۔ اور ابھی بھی گزشتہ چار ماہ سے نئے فارمیٹ میں کمپوزنگ کروا رہا ہوں ۔ اس امید پر کہ انشاءاللہ اس بار تو کامیاب ہو ہی جاوں گا ۔ کہ ہر بار شاعری کی کتاب کے لئیے جو پیسے جمع کئیے جاتے ہیں وہ کسی اور ضرورت میں خرچ ہو جاتے ہیں ۔ اور میں ہاتھ ملا کر دوستیوں اور رفاقتوں کو تازہ کئیے بنا ہی ہاتھ ملتا رہ جاتا ہوں ۔ اور اس بار اشفاق سے مل کر یہ دکھ بھرا احساس اور شدت سے ہوا کہ کم از کم اشفاق کے پاس شاعری کے ساتھ ساتھ ، محبت بھری رفاقتوں اور ہاتھ ملانے والے ، خیال رکھنے والے دوستوں کا ہجوم بھی ہے ۔ اور میں شاعری اور دوستوں ، دونوں نعمتوں سے محروم ، خالی ہاتھوں میں ارض و سما تھامنے کی خواہش میں سفر مسلسل میں شب وروز گزار رہا ہوں ۔ دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔ ماہر نفسیات و امراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ، روحانی ، جسمانی ، جنسی اور منشیات ۔ ( مصنف ، کالم نگار ، شاعر ، ادیب ، پاسٹ ) DR. SABIR HUSSAIN KHAN Consultant Psychiatrist. Psychotherapist. ( Author. Writer. Columnist. Poet. Palmist ) Director : DUAAGO THE COUNSELLORS. Centre For Mental Health And Personality Grooming. www.duaago.com www.drsabirkhan.blogspot.com www.facebook.com/Dr. Sabir Khan www.youtube.com/Dr.SabirKhan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں