جمعہ، 22 فروری، 2019

استقبال

"استقبال"
                        (15.6.83)
                  "ڈاکٹر صابر حسین خان"

میری ہستی کے شجر پہ
چاہتوں کی ننھی ننھی چڑیاں
دور دور سے آکر قطار در قطار
بیٹھنے لگی ہیں
چڑیوں کے مدہر کن گیت
آنے والے خوش آئندہ
سبز موسم کا پتہ دے رہے ہیں
زرد پتوں کے جال ٹوٹ ٹوٹ کر
زمین کی زردی میں ملنے لگے ہیں
امید کی کونپلیں پھر ایک بار
دھیرے دھیرے سر اٹھانے لگی ہیں
خزاں در خزاں کا ستم رسیدہ شجر
نئی ہواؤں سے نئی رتوں سے
آنے والے موسم کی تصویر کی بابت
مدہم سروں میں باتیں کرنے لگا ہے
شاخوں کی رگوں اور وریدوں پہ
خون دل و جگر کے پانی کے ثمرات
تخلیق کے گل و لالہ کی صورت
میں نمایاں ہونے لگے ہیں
مگر
میری ہستی کا شجر
تفکرات کے ایسے اندھیرے
جنگل میں کھڑا ہے
جہاں اگنے والی اندیشوں کی
خودرو جھاڑیوں پہ
وسوسوں کی آکاس بیل
تیزی سے اپنا پھن اٹھائے
حلقہ در حلقہ اپنے پنجے جماتی ہوئی
سبز موسم کے استقبال کو
بڑھی چلی آرہی ہے
      

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں