پیر، 18 فروری، 2019

ضروری نہیں

"ضروری نہیں"
                   (14.12.89)
                "ڈاکٹر صابر حسین خان"

ضروری نہیں
کہ جن آنکھوں میں تم
نیلگوں خوابوں کی بدلیاں
تیرتی دیکھو
اور جن ہونٹوں پہ تم
گلاب رنگ ستارے
بکھرتے دیکھو
ان کو چوم بھی سکھو
ان پہ گیت لکھ سکھو

یہ بھی ضروری نہیں
کہ تمھاری آنکھوں میں
جو رات اترا کرتی ہے
اس رات کا چاند
مقابل کے دل میں
ڈوبا کرے
اور جو بات
تم سوچتے ہو
وہ کوئی اور محسوس کرسکے
یا جس ساتھ کی تمنا میں
تم گلی گلی
گھوما کرتے ہو
وہ تم کو تمھارا ہم سفر
فراہم کرسکے

پھر کیوں نہ تم
اپنے مقام پہ رہ کر
کسی اجنبی کا انتظار کرو
کہ جب وہ آئے
اور دستک دے
تو تم
ہاتھ بڑھا کر
اس کا ہاتھ تھام سکو
جو کچھ بھی سوچتے رہے ہو
وہ سب اس سے کہہ سکو
اس کے سائے میں چھپ کر
اپنی آنکھیں موندسکو

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں