جمعہ، 22 فروری، 2019

مٹی کا گھونسلہ

"مٹی کا گھونسلہ"
                        (12.11.83)
                "ڈاکٹر صابر حسین خان"

تم بھی کیا پاگل ہو
کس سے دل لگاتے ہیں
ہم پہلے بھی یہ کہتے تھے
اور اب بھی یہ کہتے ہیں 
تم کو تم سا کہیں نہ ملے گا
راہوں راہوں ڈھونڈو گے
ہر راہ کی خاک کو چھانو گے
ہر ڈالی پہ گھونسلہ بنانے کی
خواہش تو سرا اٹھائے گی
تم یوں بھی کرکے دیکھو گے
تم یوں بھی کرکے دیکھ لو
اور ایک دن ایسا آئے گا
تم ساری ہمت ہار کے
یونہی جیون وارو گے
کوئی تم کو نہ چاہنے آئے گا
کوئی تم کو نہ اپنا بنائے گا
تنکا تنکا جوڑنے سے پہلے
ابکی بار یہ سوچ لو
یہ ڈالی بھی کمزور ہے
تمھارا بوجھ نہ سبنھالے گی
ذرا سا بوجھ جو ڈالو گے
یہ ڈالی بھی ٹوٹ جائے گی
حاصل کچھ نہ آئے گا
بخز ایک میٹھی یاد کے
جو گزری یادوں کی ساتھی بنکے
ہر شام تم سے
ملنے آئے گی
تم بھی کیا پاگل ہو
کسی سے دل لگا بیٹھے
یہ ڈالی بھی کچھ ڈالی ہے
یہ ڈالی بھی ٹوٹ جائے گی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں