منگل، 19 فروری، 2019

نادیدہ

"نادیدہ"
                         (12.6.83)
                "ڈاکٹر صابر حسین خان"

ستارہ غم ابھی سے
ٹمٹما رہا ہے
بجھے ہوئے ارمانوں کی
سلگتی ہوئی چنگاریوں کو
کون سر شام
ہوا دئیے جارہا ہے
جلتی ہوئی یادوں کا
نارنجی دھواں شفق کی
سرخی پہ چھا رہا ہے
گزری ہوئی باتوں
کے قمقمے رات سے پہلے
دل کے سونے گھر میں کون
خون جگر سے جلا رہا ہے
اندھیرا چھانے سے پہلے ہی
ظلمتوں کی شمعیں
کون بجھا رہا ہے
ابھی سے کیوں دست تقدیر
زندہ لاش کے گلے میں
روشنیوں کے ہار پہنا رہا ہے
نصارتوں کو آنکھیں دکھا رہا ہے
سماعتوں کو بھولے بسرلے
ڈوبتے ہوئے گیت سنا رہا ہے
اس سفر کی منزل تو ابھی آئی نہیں
پھر کیوں اور کون
میرے سامنے وقت کے آئینے لارہا ہے
جن کو دل بھلانے کی کوشش میں ہے
وہ کیوں یار آرہے ہیں
کون ان کے عکس دکھا رہا ہے
جن گتھیوں کو ذہن کے ہاتھ
سدا الجھاتے رہے
آج کون ان کو سلجھا رہا ہے
ذہن یہ کہتا ہے کہیں کوئی نہیں ہے
یہ تمھارا وہم ہے
جو تمھیں فریب دئیے جارہا ہے
لیکن یہ دل ناداں مانتا نہیں
نرمدل آھستگی سے کہہ رہا ہے
تمھارے سامنے ہی
تمھارا نادیدہ ہمدرد
دیرینہ ہمدم تہنائی کے پیکر
کی صورت میں بیٹھا ہوا ہے
جو اپنے پر تو سے
احساس کے آتش کدہ
کی آگ بھڑ کا رہا ہے
وقت کے آئینوں پہ سے
نیان کا پردہ اٹھا رہا ہے
بھولی ہوئی باتوں, بیتے ہوئے لمحوں
کی بے خان صورتوں کے عکس کو



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں