بدھ، 27 فروری، 2019

میں اپنے وقت کا سکندر تو نہیں

"میں اپنے وقت کا سکندر تو نہیں"
                          (15.8.83)
               "ڈاکٹر صابر حسین خان"

میں اپنے وقت کا سکندر تو نہیں
میرے ذہن پہ نہیں ہے کسی ارسطو کا سایہ
نہ کسی ستارے کی مانند
روشن و رقصاں ہے میری جبیں
نہ میں کبھی سورج سے دھنک توڑ کے لایا
میری سانسوں میں بھی
کرن کرن خوشبو کبھی مہکی نہیں
میری چارہ گری کیلئے کوئی آسماں سے نہ آیا
نہ کوئی دم بھر کیلئے بھی
بنا میرے سونے دل کا مکیں
نہ کسی نے رکھا میرے تپتے زخموں پہ پھایا
میری آنکھوں میں بھی
ٹہرا نہیں کوئی دلربا و دلنشیں
میرے تخیل کو بھی کوئی سلگتا شعلہ نہ بھایا
میرے قدموں کی دھول سے
دھنک رنگ تتلیاں کبھی نہ اڑیں
میری سوچوں کا قیدی کبھی نہ رہا زرومایا
نہ میں نے دیکھا کبھی
اپنی طرف جھکتا ہوا عرش بریں
نہ میں نے کبھی اپنی سوچوں کا سرا پایا
نہ میرے لیئے کبھی جھلملائے
کسی کی آنکھوں میں چاہتوں کے نگیں
نہ کسی نہ چاہا میرے جذبوں کا سرمایہ
مجھے نظر نہ آئے کبھی
اپنی تقدیر کے زنداں میں خواب جسیں
کسی نے میرے عذابوں کی دیواروں کو نہ ڈھایا
میرے واسطے کبھی
کسی کے دل کی شمعیں نہ جلیں
کسی نے میرے درد کی شمع کو نہ بجھایا
میری ہتھیلیوں پہ کبھی
کسی نے منزل کی راہیں نہ رکھیں
میں جو گرا کبھی کسی نے بھی نہ اٹھایا
مگر میرے دل کی ظلمتوں میں
ایک شمع کی ہے روشنی کہیں کہیں
جس کی لو کی کبھی کبھی میری امید نے ہے بڑھایا
میرے گماں کی سرحدوں پہ
بانگیں دبے رہے ہیں مرغان یقین
مجھے نہ ہوگا کبھی غم کہ میں فاتح عالم نہ کہلایا
میری فتح کی گواہی تو دے گی
دلوں کی سبز ہوتی ہوئی سرزمیں
کیا غم رنج کہ ابھی تک پرندوں نے صبح کا گیت نہ گایا
رات بھر رات ہے اسے
لے ڈوبے گا کبھی نہ کبھی سورج کا یقیں
اندھیروں کے غم کو کب کس نے دیر تک ہے کھایا
لیکن لاشوں کے انبار پہ
میں اپنے جھنڈے گاڑ سکتا نہیں
کہ میرے ذہن پہ نہیں ہے کسی ارسطو کا سایہ
میں ہوں محبت کے گیت گانے والا
میں کوئی اپنے وقت کا سکندر تو نہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں