منگل، 19 فروری، 2019

قحط الرجال

"قحط الرجال"
                         (12.4.83)
                 "ڈاکٹر صابر حسین خان"

کبھی کبھی میرے دل کا دیا
دھیرے دھیرے ٹمٹمانے لگتا ہے
دھواں دھواں سوچوں کی پھوار
دھیمے دھیمے پڑنے لگتی ہے
پت جھڑ کے موسم میں
اڑتے ہوئے زرد پتوں کی طرح
میری جواں فکر کے کمھلائے
ہوئے پھول کی آتشی پنکھڑیاں
ادھر سے ادھر ڈولتی ہیں
سوچ کے پریشاں ہوتا ہوں
کہ آج منزل کی جانب
جاتے ہوئے سب راستوں
کے سنگ میل
ماضی کے کٹھن اور طویل
سفر کی تھکن کے غبار سے
دھندلےپڑگئے ہیں
اندھیری رات کے مسافروں کی
تاریک راہوں کو اجالنے والے
سوچ کی روشنی کے سارے چراغ
جہد مسلسل سے
دھیمے پڑگئے ہیں
آخر زندگی آج کیوں
اتنی ارزاں ہوگئی ہے
اس عالم بے ثبات میں کیا
قحط الرجال کا عالم
طاری ہو چلا ہے
پھر قلب کے کسی کونے سے
یہ صدا ابھرتی ہے
ہاں! ایسا ہوگیا ہے
ایسا ہی ہونا تھا
کہ یہ قانون فطرت ہے
ایسا اس وقت ہوتا ہے
جب مصلحتوں و خواہشوں
کے گہرے دبیز بادلوں
کا جھنڈ فطرت کے آفتاب کو
اپنی نقاب میں چھپا لیتا ہے
اور مادے کی بارش
روح نظر و عمل کی شعاؤں کی
تپش کو مٹانے لگتی ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں