منگل، 19 فروری، 2019

عفریت

"عفریت"
                         (24.4.83)
                 "ڈاکٹر صابر حسین خان"

کمرے کی سبز دیواروں پر
تنہائی کے سرخ خون نے
بے رحم سیاہی مل دی ہے
چوتھی سمت والی کھڑکی
کے چٹخے ہوئے شیشے سے
سیاہ آسمان اندر جھانک رہا ہے
میرے ہاتھ خون سے لتھڑے ہوئے ہیں
میری گردن اکڑ چکی ہے اور
میری آواز گھٹنے لگی ہے
باہر کا اندھیرا آہستہ آہستہ
میرے اندر اتر رہا ہے
ہوا بند ہے اور ………
سارے ستارے ڈوبنے لگے ہیں
بیکراں سناٹا کسی ہلاکت خیز طوفان
کی آمد کا پتہ دے رہا ہے
باہر منڈیروں پہ بیٹھے ہوئے
تمام پرندے اپنے اپنے
گھونسلوں کی طرف اڑنے لگے ہیں
مگر میری روح جسم کے
ایسے ننھے پر کٹے ہوئے
زخمی پرندے میں بند ہے
جس کے پنجرے کے
باہر سے کوئی چٹخی لگا کر
ساحل سمندر کی ٹھنڈی ریت پہ
ننگے پاؤں ٹہلنے چلا گیا ہے
خون جگر پلا پلا کے
منور بنا رہا ہے
سوچ کی بھٹی میں
پھیلتی سکڑتی رگوں
کے کوئلے دہکا رہا ہے
یہی وجہ ہے شاید
کہ ستارہ نم ابھی سے
ٹمٹمانے لگا ہے
جلتی ہوئی یادوں کا
نارنجی دھواں شفق کی
سرخی پہ چھانے لگا ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں