جمعرات، 21 فروری، 2019

دھوپ کی دیوار

"دھوپ کی دیوار"
                     (15.5.83)
               "ڈاکٹر صابر حسین خان"

نہ تم نے کچھ کہا اور
نہ میرے لب بنے ہیں
کبھی دل کی زباں
کتنی دوریوں کی مجبوریاں
رکتی ہیں ہم دونوں کے درمیاں
دریا کے کناروں کی طرح
کہیں نہ ملتے ہوئے
لیکن دور تک رواں دواں
بیچ میں ہیں حائل
جگہ جگہ پہ انا کی
چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں
کتنا جان لیوا ہے
سفر مستقیم میں ساتھ
نہ دینے کا یہ سلسلئہ بیکراں
مگر خوشنما و دلربا ہے
ساتھ ساتھ چلنے کا
یہ خیال سفر جاوداں
جس نے رکھا ہے سدا
میری چاہتوں کو نوجواں
کہ نشو و نما پاتی ہیں
امیدیں دھوپ کی دیوار
کی حدت سے تھکی کبھی کبھی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں