بدھ، 27 فروری، 2019

غزل

"غزل"
                          (11.8.83)
                "ڈاکٹر صابر حسین خان"

وہ لڑکی کیسی لڑکی تھی
جو آئی اور آکر چلی گئی

مجھ سے میرا حال نہ پوچھا
پر بے حال بنا کر چلی گئی

اب رتجگوں کی راتیں ہیں
نیزوں کو لے کر چلی گئی

جیون کی اندھی شاہراہ میں
ایک شمع جلا کر چلی گئی

عشق میں بھلا کیا رکھا ہے
چپ چاپ بتا کر چلی گئی

میں سوچوں بھی تو کیا سوچوں
وہ اوس گرا کر چلی گئی

چپ رہ کر سب کچھ کہتی تھی
خاموشی سکھا کر چلی گئی

ہونٹوں کو سی کر آنکھوں سے
ہر بات سنا کر چلی گئی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں