بدھ، 20 فروری، 2019

نقش

"نقش"
                   (4.5.83)
                  "ڈاکٹر صابر حسین خان"

تپتے موسم کی
ڈھلتی دھوپ میں
گھنیرے درختوں کے
اندھیرے جھنڈ سے
زرد, نیلے, اودے
لال, ہرے اور نارنجی
رنگ کے پروں کی تتلیاں
جاتی ہوئی شام کے ماتھے کا
بوسہ لیتی ہوئی
حنائی رنگ کی پھول بنتی ہوئی
کلیوں کو
مدہم سرگوشیوں میں
وداعی سلام کہنے آئی ہیں
سرمئی شام کے ایسے سمے
مجھ کو اس کا اپنی
کلیوں کی سی رنگت کی
حنائی ہتھیلیوں سے
اپنے شام سے کشادہ ماتھے
کا بوسہ لینا اور
تتلیوں کی سی مدہم سرگوشی
میں وداعی سلام کہنا
بڑی شدت سے یاد آیا ہے
مگر میری امیدوں کی
ساری تتلیاں اپنے کچے
زرد, نیلے, اودے
لال, ہرے اور نارنجی
رنگ میری ہتھیلیوں پہ چھوڑ کے
اسکے آنگن میں کھلنے والی
نئی رتوں کی نئی کلیوں سے
گلے ملنے جا چکی ہیں
اور میں مٹھیاں بند کئیے
کچے رنگوں کے مٹتے ہوئے نقش کو
سنبھالنے کی کوشش میں لگا ہوا ہوں


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں