منگل، 26 فروری، 2019

آنگن اور سائے

"آنگن اور سائے"
                         (22.8.83)
                 "ڈاکٹر صابر حسین خان"

بیس سالہ ننھا بچہ
چھوٹے چھوٹے کنکروں سے
کھیلتا ہوا یکبارگی چاند کی
جانب دیکھتا ہے
تتلیوں اور جگنوؤں کے ساتھ
جھیلوں اور باغوں کی سیر
رنگوں, روشینوں اور
خوشبوؤں کو تحیر
تجسس اور مسرت کی آمیزش
سے اپنی آنکھوں میں جذب کئیے بغیر
بچپن کے مفہوم سے
نا آشنا, اجنبی وہ آج
لڑکپن کی سرحدوں
سے گزرتا ہوا نوجوان کی
حدوں میں داخل ہورہا ہے
گر آج بھی اسکے ہاتھ کی لکیروں پہ
محرومیوں اور ناکامیوں کی
دیو پیکر چمگاڈر اپنا سایہ
بچھائے ہوئے ہے
کھلی پت کے ننگے فرش پہ
آموں کی مہک سے گونجتی ہوئی
ہوا میں بھیگتے ہوئے
بیس سالہ ننھا بچہ
چھوٹے چھوٹے کنکروں سے کھیلتا ہوا
چاند کی جانب دیکھتا ہے
مگر آٹھویں کے چاند کی
نیلی روشنی کو زینوں کے اوپر
لگے ہوئے بجلی کے قمقمے کی زردی
نے اپنے "سائے" میں لیکر
"آنگن" میں پہلا قدم
رکھنے سے روک دیا ہے



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں