جمعرات، 21 فروری، 2019

ترشول

"ترشول"
                       (31.5.83)
                    "ڈاکٹر صابر حسین خان"

اس کی پھول سی انگلیوں میں
دبے ہوئے قلم کو دیکھ کر
ایک لمحے کو اک نازک خیال
ہوا کے لطیف جھونکے کی مانند
میری سوچ کی زلفوں کو
بکھیرتا ہوا گزر گیا کہ کیا کبھی
ان پھولوں سی انگلیوں میں
دبے ہوئے قلم نے میرا نام بھی
کہیں کسی کورے کاغذ پہ لکھا ہوگا
کیا کبھی میرے نام کی شبنم کی
حدت کو محسوس کرکے
ان انگلیوں کے پھول
کھلے ہوں گے, کھلکھلائے ہوں گے
مگر گزر جانے والے
ہوا کے لطیف جھونکے کو
گزر جانے والوں کی طرح
خبر نہیں کہ وہ
سلگتی ہوئی خوشبو کا ترشول
میرے وجود میں اتار چکا ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں