پیر، 28 جنوری، 2019

سوال اور جواب

"سوال اور جواب" نیا کالم/ مضمون
دعاگو. "ڈاکٹر صابر حسین خان"

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو سوال میرے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں. کیا آپ کا ذہن بھی ان سوالوں کی آمد و رفت سے الجھا رہتا ہے.اور اگر ایسا ہے تو آپ ان کے جواب ڈھونڈنے کی کیا جستجو کرتے ہیں.اور اگر اپنے سوالوں کے جواب نہیں ڈھونڈتےتو پھر کیا کرتے ہیں.اور اگر کچھ نہیں کرتے تو کیوں کچھ نہیں کرتے.جب کرنے کو کچھ اور نہ ہو تو سوال جواب کا سلسلہ تو دراز کیا جا سکتا ہے.جواب ملے نہ ملے,سوال تو اٹھایا جا سکتا ہے.اور سوال نہ ہو تو کوئی نہ کوئی سوال پیدا تو کیا جاسکتا ہے.
ذہن کو زندہ رکھنے اور نکتہ انجماد تک پہنچنے سے بچانے کیلئے سوال و جواب کے سلسلوں اور مکالموں کا جاری رہنا ضروری ہے.خیال رہے کہ مکالمے اور مباحثے میں فرق ہوتا ہے.Debate الگ شے ہے.  Discussion کچھ اور ہوتی ہے.سوال کا جواب مل جائے تو طمانیت کا احساس ہوتا ہے.جواب نہ مل پائے تو تشنگی رہتی ہے.کچھ سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہوتا.کچھ جواب,اپنے سوالوں کو ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں.ہر چہار صورت,ذہن کی دنیا کا رونق میلہ,سوال اور جواب کی Interaction اور باہمی Discussion کا مرہون منت رہتا ہے.ہر سوال سے پہلے اور ہر سوال کے بعد ایک اور سوال ہوتا ہے.عام طور پر جواب,تھک جاتے ہیں.اور پے در پے پیدا ہونے والے سوالوں کے حملوں سے بچنے کیلئے آنکھیں موند کر سونے کی سوچتے ہیں یا راہ فرار ڈھونڈتے ہیں.
سوال کی شدت,سوال کی حدت,سوال کی طاقت سوئے ہوئے جوابوں کو جگانے کی اہلیت رکھتی ہے.مفرور جوابوں کو تلاش کرکے اپنے سامنے لا بٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہے.اور خوابوں کے ڈھیر میں سے مطلوبہ صحیح جواب چننے کی استطاعت رکھتی ہے.پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ سوال میں شدت,حدت اور طاقت کب اور کیسے پیدا ہوتی ہے.کیا آپ کے ذہن میں کبھی یہ سوال یا اس سے ملتا جلتا سوال آیا ہے.شاید نہیں.کہ یہ ذرا ایک مشکل سوال ہے.اور ہماری عمومی نفسیات عام طور پر ہمیں مشکل سوال اٹھانے کے بوجھ سے بچا کر رکھنا چاہتی ہے. بلکہ ہماری اولین چاہت یہ ہوتی ہے کہ زندگی میں کوئی سوال کبھی پیدا ہی نہ ہو.اور زندگی کے ھر مقام پر ہر سوال کے پیدا ہونے سے پہلے اس کا جواب مل جائے.ھر مسئلے کے پیدا ہوتے ہی اس کا حل سامنے آجائے.ہر رکاوٹ کے سامنے آتے ہی کوئی نیا راستہ کھل جائے.
ایسا بھی ہوتا ہے.لیکن ایسا عام طور پر بہت زیادہ خوش قسمت لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے.ظاہر ہے میں اور آپ تو بہت زیادہ خوش قسمت لوگوں کی صف میں شامل نہیں.میں اس لیئے نہیں کہ میں اس وقت اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالوں سے مجبور ہو کر یہ تحریر لکھ رہا ہوں.اور آپ اس لیئے نہیں کہ آپ اس تحریر کو پڑھ رہے ہیں.بہت زیادہ خوش قسمت لوگوں کو یہ سب لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں پڑتی.ان کے ذہنوں میں سوال پیدا نہیں ہوتے.اور جب سوال ہی نہیں ہوتے تو ان کو جواب ڈھونڈنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی.مست مگن زندگی ان کا مقدر ہوتی ہے اور مست مگن زندگی سوچنےسے,سوال اٹھانے سے اور جواب ڈھونڈنے سے نہیں ملتی ہے.یہ مقدر سے ملتی ہے,درویشوں کو ملتی ہے,دیوانوں کو ملتی ہے,نصیب والوں کو ملتی ہے.
میرے اور آپ کے نصیب میں نہیں ہے یہ زندگی تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے سوالوں کو پیدا ہونے سے کیسے روکیں نہ ہوگا سوال نہ جواب ڈھونڈنے کی جستجو  اور تگ ودو ہو گی.اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کیلئے ہمیں یہ سوال اٹھانا ہو گا کہ آخر ہماری سوچ میں سوال پیدا ہوتے ہی کیوں ہیں.کائنات کی اور حیاتیات مثلا پودے,درخت,جانور اور پرندے یہ سب بھی اپنی اپنی زندگیاں بنا کسی سوال جواب کے گزار دیتی ہیں.یہ سب ذہنی روح سکون سے جنم لیتے ہیں اور سکون سے سطح زمین سے غائب ہو جاتے ہیں.اپنی اپنی معیاد زندگی پوری کرکے کوئی سوال کئے بغیر کسی جواب کو ڈھونڈے بغیر.
ہم انسان کیوں دیگر مخلوق سے مختلف ہیں.ہوش سنبھالتے,شعور آتے ہی ہمارے ذہن کیوں ہزاروں لاکھوں سوالوں کی آماجگاہ بن جاتے ہیں.جو پھر پوری زندگی کبھی ختم نہیں ہوتے تاوقتیکہ ہم خود ختم نہ ہو جائیں.کیا انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے.اس لئیے یا انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کے اندر ذہن اور سوچ اور سوال کا خمیر رکھ دیا گیا ہے.ھر دو صورتوں میں اگر موت کی طرح سوچ اور سوال بھی انسان کے مقدر کا حصہ ہے اور Inevitible ہے تو اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کسی طرح اپنے سوچنے کے عمل کو Tame کر سکتے ہیں.اس طرح ڈھال سکتے ہیں کہ سوال تو پیدا ہوں مگر وہ ہمیں بے سکون نہ کریں.ہمارے اندر اضطراب پیدا نہ کریں.
وہ کون سے طور طریقے ہیں جن کی مدد سے ہم اپنے اندر پیدا ہونے والے سوالوں کو اپنے اور دوسروں کیلئے دھوپ کی بجائے چھاؤں کا باعث بنا سکتے ہیں.اس سوال کا جواب آسان بھی ہے اور مشکل بھی.آسان اس لیئے کہ ذرا سی کوشش سے ہم اسی سوال کا جواب جان سکتے ہیں اور مشکل اس لیے کہ جواب جاننے کے بعد ہم میں سے زیادہ تر لوگ اسے مان نہیں پاتے.اس خواب کے مطابق خود کو ڈھال نہیں پاتے.ان دو جملوں میں ہی اس سوال کا جواب پوشیدہ ہے.جاننا اور ماننا.کچھ خان لینا کچھ اور ہے اور جان کر مان لینا کچھ اور.ہمارے ذہنوں میں پیدا ہونے والے زیادہ تر سوالوں کا تعلق جاننے کی حد تک ہوتا ہے اور جاننے کی حد تک رہتا ہے.محض Information یا معلومات اور یا پھر معلوماتی تعلیم Informative Learning ہم میں سے بہت کم لوگ جاننے کے بعد مانتے ہیں یا ماننے کے عمل کو ضروری سمجھتے ہیں.جب ہم کچھ خان کر اسے مان لیتے ہیں اور اسے اپنی عملی زندگی میں Incorporate کر لیتے ہیں تو ہمارے اندر بپا سوالوں کا طوفان تھمنے لگتا ہے اور ہم مشانت ہوجاتے ہیں.لکین جب ہم جاننے کے باوجود ماننے سے انکاری رہتے ہیں اور ملنے والے جوابوں میں مین میخ نکالتے رہتے ہیں تو ہماری سوچوں میں جنم لینے والے سوال ختم ہونے کی بجائے بڑھنے لگتے ہیں پھیلنے لگتے ہیں اور ہمیں دن رات بے سکون کرتے رہتے ہیں.
سوالات کی بھر مار سے بچنے کا سب سے احسن طریقے Need To Know کا ہوتا ہے.اتنا ہی جانا جائے,جتنے کی ضرورت ہو.غیر ضروری معلومات,ہمارے ذہن پر غیر ضروری بوجھ اور دباؤ ڈالتی ہیں.اور ہمارے اعصاب کوشل کرتی ہیں.غیر ضروری سوالات ہمیں ہماری راہ سے بھٹکا دیتے ہیں.اور یہ اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ہم اپنے بنیادی سوالوں کے جواب پانے کے باوجود مطمئن نہیں ہوتے,انہیں عملی طور پر لاگو نہیں کرتے,ان پر اکتفا نہیں کرتے اور مزید جاننے کی لالچ میں اپنے نجس کو اتنی ہوا دے دیتے ہیں کہ پھر اسے قابو میں رکھنا اور واپس لانا ہمارے بس میں نہیں رہتا.
شکر اور قناعت,سوالات کی بھر مار سے بچنے کا دوسرا طریقہ ہے. دنیاوی نعمتوں کی طرح,ہماری سوچوں کا بھی ایک Potential ہوتا ہے.ہم جب بھی اپنے Potential اپنی حدوں سے ذیادہ کسی بھی شے کی لالچ کرتے ہیں.خواہ وہ علم کی ہی کیوں نہ ہو,معلومات کی ہی کیوں نہ ہو تو ہماری شخصیت اور ہماری نفسیات کا توازن بگڑنے لگتا ہے.ضرورت سے ذیادہ سوال,ضروریات سے ذیادہ اشیاء کی طرح ہماری Efficiency کے گراف کو گرا دیتے ہیں.اپنی اہلیت,اپنی قابلیت کی حد بندی میں کئیے جانے والے سوال,مطمئن خوابوں سے ہمکنار کرتے ہیں.
ہر سوال کا جواب نہیں ہوتا ھر سوال کا جواب نہیں مل سکتا.اس حقیقت کو سمجھ لینا اور سمجھ کر مان لینا غیر ضروری سوالات سے نجات کا تیسرا طریقہ ہے. جن سوالوں کا جواب نہیں مل پائے.ان کو ان کا حال پر چھوڑ دینا چاہیے. اگر ہمارے نصیب میں ان کا جواب ہے تو اپنے وقت پر وہ جو اب خود بخود ہمارے سامنے آجائے گا اور اگر نہیں تو اس سے اچھی بات کیا ہوگی.کہ قدرت نے ہمیں ایک اور سوال ایک اور جواب کے اضافی بوجھ سے بچا لیا.
لاکھ سوچنے,تلاش کرنے اور سر پھوڑنے کے باوجود جب کسی سوال کا جواب نہ مل پائے تو سوال بدل لیں.کئی بار سواری بدلنے سے سفر آسان ہوجاتا ہے. یہ چوتھا طریقہ ہے خود کو سوال کی اذیت سے بچانے رکھنے کا دنیا کی ان گنت ایجادات اور انکشافات اسی طریقے کی مرہون منت ہیں.سوچتے رہیئے سوال اٹھاتے رہئے لکین وقتا فوقتا اپنی سوچوں اور سوالوں کے زوایے بدلتے رہیئے.
کئی بار مسئلہ سوال میں نہیں,ہماری سوچ کے انداز میں پوشیدہ ہوتا ہے.اپنے سوالوں کے ساتھ اپنی سوچوں اور اپنے انداز سوچ کو بھی کھنگالتے رہیئے Cuboid Puzzle کی طرح ان میں اتھل پتھل پیدا کرتے رہیئے.منجمدسوچ اور بوسیدہ سوال کبھی بھی فرحت بخش خوابوں سے ہمکنار نہیں کر پاتے.
ہمہ وقت حرکت میں رہیئے.بے شک حرکت میں برکت ہے. خود کو مصروف رکھیئے حرکت اور مصروفیت سوالوں کی یلغار سے بچنے کا پانچواں طریقہ ہے اور سب سے خوبصورت طریقہ ہے.اپنے سوالوں کے جواب مختلف کاموں,مختلف مشغلوں میں ڈھونڈئیے ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھ کے کسی انہونی,کسی جادو,کسی معجزے کا انتظار کرتے رہنے سے سوالات کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے.چھوٹے بڑے کاموں میں Involve ہوجائیے اور کچھ نہیں تو آلو,پیاز اور بھنڈیاں کائنا شروع کر دیں. غیر ضروری سوال خود ہی رخصت ہوجائیں گے اور ضروری سوالوں کے جواب خود بخود ملنے شروع ہو جائیں گے.
سوال ہوں یا مسائل سوالوں کے جوابات کی کھوج ہویا مسائل کے حل کی جستجو ھر دو صورتوں میں سکون اور اطمینان سے شب وروز گزارنے کیلئے اس آزمادہ نسخے کو اپنی زندگی میں کھول کر دیکھئے انشاءاللہ آپ کو مایوسی نہیں ہوگی.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں