بدھ، 16 جنوری، 2019

The Man With The Golden Heart

"The Man With The Golden Heart"
                    (24.5.84)
                   "ڈاکٹر صابر حسین خان "

                         (1)
رات کا سائیاں سر پر آیا
آو! میری یادو!
چلو چل کر کہیں اجالا کریں
عشق کا بے انت صحرا
کسی آبلہ پا کے انتظار میں
ریت کے آنسو رو رہا ہے
کیوں نہ ہم تم یک جان ہو کر
کسی کی محبتوں کا غم تازہ کریں
کسی کی زلفوں سے کھیلتی ہوئی
چاندنی سے باتیں کرنے کا دور نہیں رہا
                       ………………
وہ دور اب نہیں رہا
جب چاندنی زلفوں سے کھیلتی تھی
اور کسیکے شانے پہ
کسی کی پیشانی
محبتوں کی کہانی کہتی تھی
بیسویں صدی کے ان مشینی لمحوں میں
جب کسی کے چہرے پر
دوسری نگاہ ڈالنے کی بھی فرصت نہیں
ہم تم اگر ایک دوجے کی یاد میں
اپنے عشق کی ساری حراتیں
آنسوؤں کی شکل میں ڈھال کے
بے وفا کرنوں کے حضور لٹا دیں
تو خود ہی سوچو!کہ
اگلے دن کا زندہ سورج
                     ………………
                         (2)
کتنی ہی زندگیوں کیلئے
مرگ کا ساماں لے آئے گا
میری جاں! جو ہم نے ہوں نہ سوچا
تو جانے کتنی ہی
امنگوں سے بھرپور سانسیں
جو اپنے اپنے دائروں میں
ہمارے دم سے زندہ ہیں
ماہئ بے آب کی طرح
تڑپ تڑپ کے اپنی جاں دے دیں گی
اور جانے کتنی ہی خواہشوں سے چمکتی آنکھیں
جو اپنے اپنے حلقوں میں
ہماری آنکھوں سے دیکھتی ہیں
ایک لمحے کیلئے جھلملا کے بجھ جائیں گی
              ………………
جان  جاں! ایٹم کے اس سہنری دور میں
اپنی ذات کی بھول بھلیوں میں کھوئے ہوئے
غم جاناں کے خوابیدہ شہروں کے باسی
اپنے عہد کے ظالم و قاتل و مجرم ہیں
ہر دور میں انسان کو بیچا گیا ہے
اور آج بھی انساں بکتا ہے
مگر آج اسکی قیمت اتنی گر گئی ہے
کہ کل اتنی ہی قیمت میں
گندم کی پوری بوری آجاتی تھی
                 …………………
                        (3)
پھر ہم کیوں اپنے عشق کی داستانیں لکھیں
محرومیوں میں سلگتے ہوئے لوگوں کو
کیوں اپنے جلتے ہوئے دلوں سے زخمی کریں
اب جب کہ غم جاناں سے کہیں زیادہ
غم دوراں کا جادو سر چڑھ کے بول رہا ہے
آو! ہم تم بھی اس دنیا کے باسیوں کی تشنہ لب آرزووں,
بیگراں مجبوریوں اور
بے پناہ محرومیوں کی جو لانیاں
اپنے گیتوں میں ڈھال لیں
شیریں فرہاد کے قصے بھلا کر
ہجر کے غم دلوں میں دبا کر
اپنے قلم سے گرتے ہووں کو سنبھال لیں
                ………………
اور میری جاں! جو ہم نے یوں نہ کیا تو
وقت کے شیش ناگ کی پھنکارتی ہوئی زباں
ہمارے قلموں کو ڈس کے
انہیں ہماری گردنوں کے طوق بنادے گی
اور اپنے کڑوے کیلئے زہر کے سحر سے
ہماری سوچوں کی سونا اگلتی زمیں پہ
شب سیاہ کا گھنا آسماں بچھا دے گی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں