پیر، 28 جنوری، 2019

کامیابی کی بنیاد

"کامیابی کی بنیاد" نیا کالم/مضمون
دعاگو. "ڈاکٹر صابر حسین خان"

نظم و ضبط کے بنا نہ فرد کامیابی حاصل کرسکتا ہے,نہ قوم ترقی پا سکتی ہے اور ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہم نظم و ضبط سے عاری زندگی گزارنے کے عادی ہیں.ہم روٹین کے لگے بندھے کام تو باقاعدگی سے کر لیتے ہیں.یا یوں کہہ لیں کہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں.لیکن ان روٹین کے کاموں کے علاوہ ہمارے روزوشب کسی بھی طرح کے باقاعدہ,باترتیب,منظم پلان و پروگرام سے بہت دور ہوتے ہیں.ہمارے پاس مستقبل کا کوئی واضح منصوبہ نہیں  ہوتا.زندگی کا کوئی مشن,کوئی گول نہیں ہوتا.اور اگر بھولے سے کوئی منصوبہ,کوئی گول ہمارے دامن میں آبھی گرے تو اس کو عمل میں ڈھالنے کیلئے,Execute کرنے کیلئے کوئی نقشہ نہیں ہوتا.ہم اناڑی پیراک کی طرح ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں کہ اس طرح کنارے لگ جائیں گے.مگر جلد یا بدیر تھکن حاوی ہوجاتی ہے اور ہم اپنے ناممکن منصوبوں اور ادھورے کاموں کے بیچوں بیچ ڈوب جاتے ہیں.دراصل ہمیں صحیح سوچنے اور صحیح سمت میں سوچنے کی بنیادی تربیت نہیں ملی ہوتی ہے. ہماری تعلیم کے کسی بھی مرحلے پر ہمیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ زندگی محض سبق یاد کرنے اور امتحان پاس کرتے رہنےکا نام نہیں.زندگی کا اصل امتحان تو تعلیمی اداروں کے امتحان ختم کرلینے کے بعد شروع ہوتا ہے.اور ہمارے پاس اس کی ہی تیاری نہیں ہوتی.ہم ڈگریاں لیکر کام کے بازاروں کا چکر لگاتے رہتے ہیں.اورہر انڑویو میں Job Description اور salary Package  پوچھ پوچھ کر گھروں کو پلٹتے رہتے ہیں.
ماں باپ کے پاس ہمارے لئیے وقت نہیں ہوتا. اساتذہ اپنی Economy اور Scales
کو بہتر بنانے میں لگے رہتے ہیں.ہم جھاڑ جھنکار کی صورت بڑے ہوتے رہتے ہیں. اور پھر اتنے بڑے ہوجاتے ہیں کہ خود کو عقل کل سمجھنے لگتے ہیں. اور اپنی عام تر عقل اور سمجھ اور علم کے باوجود اپنی زندگی میں نظم و ضبط لانے کا استعمال نہیں سیکھ پاتے.نتیجے میں ایک عمر گزر جاتی ہے اور ہم اپنے اپنے شعبوں میں معمول کے کاموں کے سوا کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں حاصل کر پاتے. کامیابی,جہاں ایک طرف قسمت اور محنت کی مرہون منت ہوتی ہے.وہاں دوسری طرف اسے حاصل کرنے کیلئے Innovation کی ضرورت پڑتی ہے.نئے Ideas کو علمی جامہ پہنانے کی ضرورت پڑتی ہے.اپنی Imagination کو وقت کی ضرورت کے مطابق ڈھالنا پڑتا ہے پھر کہیں جاکر ہم اپنے اپنے کاموں میں تھوڑی بہت Excellence حاصل کرسکتے ہیں.لیکن ان تینوں "آئیز" کو چھوٹے آئی میں ڈھالنے کیلئے ہمیں اپنے تمام معاملات اور معمولات زندگی میں نظم و ضبط کی ضرورت پڑتی ہے.Innovation ہو یا Ideas یا Imagination تینوں کی Implementation کیلئے Infrastructure درکار ہوتا ہے.یعنی کہ پانچواں "آئی".اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنی نوکری,اپنے کام,اپنے کاروبار میں اتنا مصروف ہوتے ہیں تو ہم بنا کسی مدد, بنا کسی ابتدائی تربیت,بنا کسی بنیادی علم کے آخر کیسے اتنے سارے "آ ئیز" کو مہنہ دے سکتے ہیں. ظاہر ہے بظاہر نہیں تو ہم خود کو چھٹے "آئی"کے سپرد کرکے روٹین کی زندگی گزارنے لگتے ہیں.اور پھر تمام عمر ایک ایسے Island میں گزار دیتے ہیں جہاں سے چاروں طرف سمندر ہی سمندر دکھائی دیتا ہے.اور اس سمندر کو پار کرنے کا کوئی ذریعہ,کوئی طریقہ دکھائی نہیں دیتا.اور ہم روٹین کے کاموں میں,روٹین کی زندگی گزار کر قبروں میں جا لٹتیے ہیں. ہم نے اپنے روزمرہ کے روٹین کو ہی نظم و ضبط سمجھ لیا ہے.اور اس سمجھ نے ہمیں کولہو کا بیل بنا دیا ہے.
ھر وہ بات,ہر وہ چیز جو ہمارے روٹین سے ہٹ کر ہوتی ہے. ہمارے مزاج کو گراں گزرتی ہے.اور ہم حتی الامکان اس نئی بات,اس نئی چیز سے اپنا دامن بچانے کی کوشش کرتے ہیں.اور یہی چاہتے ہیں کہ ایک لگے بندھے Pattern میں ہمارے شب و روز گزرتے رہیں اور کسی بھی طرح کا کوئی نیا پن,کوئی نیا انداز,کوئی نیا رنگ,کوئی نیا خیال,کوئی نیا نظریہ,کوئی نیا کام ہمارے Fixed Cycle کو توڑ نہ دے.
یہ سوچ,یہ طریقہ,زندگی گزارنے کا یہ انداز ہمیں غیر معمولی کامیابیوں سے دور رکھتا ہے.درحقیقت ہمارے اندر کا ڈر ہمیں کچھ نیا نہیں کرنے دیتا.کچھ نیا نہیں سوچنے دیتا.اور اس ڈر کی جڑیں بھی ہماری اولین تعلیم اور تربیت کے جنجال پورے میں پوشیدہ ہوتی ہیں.کہ ہم کوئی بھی نیا کام کیسے سیکھیں گے.کوئی بھی نیا کام کیسے کریں گے.ہم تو پہلے ہی اپنے کاموں سے تنگ ہیں.ہم تو پہلے ہی کاموں کے انبار تلے دبے ہوئے ہیں.نیا کام تو ہمارے بوجھ کو اور بڑھا دے گا.اس سوچ کی بنیادی وجہ ہمارے اندر نظم و ضبط کو Adopt  اور Apply کرنے کی اہلیت کا نہ ہونا ہوتا ہے.
ہمارے اندر کا نظم و ضبط اگر Intact اور Integrated ہو تو ہم بہت اطمینان اور سکون سے نئے کاموں,نئی باتوں,نئی باتوں, نئی سوچوں کو نہ صرف خوش آمدید کہتے ہیں بلکہ بڑے آرام سے اپنے معمول کے کاموں میں گنجائش نکال کر نئے کاموں کو,نئی باتوں کو Add on کر لیتے ہیں.یاد رکھیں ہماری ذہنی قوت و صلاحیت اسی وقت بڑھتی اور پروان چڑھتی ہے. جب ہم اپنے Neurons کو مستقل مصروف رکھتے ہیں.اور مستقل مصروفیت اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے دماغ کو ہمہ وقت کسی بھی نئی بات,کسی نئے کام کو Pick کرنے اور سمجھنے کیلیے چوکس و چوکنا رکھتے ہیں.اور روزانہ کی باتوں اور معمول کے کاموں کے ساتھ کچھ نیا دیکھتے,کچھ نیا پڑھتے,کچھ نیا سوچتے ہیں. درحقیقت نئے پن کی جستجو اور تگ ودو ہی ہمیں اپنی سوچوں میں نظم و ضبط کی عادت ڈالتی ہے.اسی سے ہم Self editing اور Self Monitoring  سیکھنے میں اس عادت کے استعمال سے پھر ہمارے اندر کا ڈر ہمیں ڈرانے کی بجائے ہمیں کامیابیوں کے حصول کے نئے طریقے سیکھاتا ہے.ایک نیا Idea ہمیشہ ایک دوسرے خیال تک لے جاتا ہے.اور پھر نیا خیال ہماری پرانی کمیوں, کوتاھیوں اور غلطیوں کو Highlight کرتا ہے.اور ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم انہیں Rectify کرکے اپنی اصلاح کرسکیں.اور اپنی اصلاح کرکے خود کو کامیابی کے اگلے زینے پر چڑھا ہیں.لکین یہ پورا عمل Automatic اسی وقت ہوسکتا ہے. جب ہمیں اوائل عمر سے ہی Self discipline کی عادت ہو. تبھی ہم عمر کے ہر مقام پر اپنی پرانی نصابی کتابوں اور پرانے مشغلوں کے ساتھ ساتھ اپنی پرانی عادتوں کو Edit کر سکتے ہیں کہ زندگی کے اگلے مرحلے میں ہمیں اپنی کون کونسی پرانی چیزوں اور باتوں کے ساتھ کون کونسی نئی باتوں اور نئی سوچوں کو Incorporate کرنا ہے.کون سی چیزوں کو بالکل ترک کر دینا ہے. کون سی باتوں کو ازسرنو Reframe اور Refresh کرنا ہے.اور کون سی نئی چیزوں کو Adopt کرنا ہے.
بچوں کو ڈسپلن سکھنا والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہوتی ہے.لیکن ہم سب اپنی اس ذمہ داری کو فراموش کر بیٹھے ہیں. چونکہ ہم نے خود نظم و ضبط سے عاری بچپن گزارا ہے تو اس کی سزا ہم اپنے بچوں کو دے رہے ہیں.ہماری ڈیوٹی بس اتنی سی رہ گئی ہے بچوں کو وقت پر اسکول چھوڑ آئیں اور لے آئیں.اور پھر ان کو ٹیوشن پڑھنے روانہ کر دیں.ہم نے ان کا ساتھ وقت گزارنا,ان کو وقت دینا چھوڑ دیا ہے.ان کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنا اور ان کے ساتھ ان کے Level پر آکر کھیلنا کودنا چھوڑ دیا ہے.ہم نے ان کو کھیل کے میدانوں اور پارکس سے دور کرکے ان کے ہاتھوں میں موبائیل فون تھما دئیے ہیں. اسکولز اور کالجز میں دی جانے والی تعلیم کسی بھی طرح بچوں اور نوجوانوں کی شخصیت اور نفسیات کے نشوونما نہیں کر رہی.ایک زمانہ تھا جب ہر اسکول,ہر کالج کے ساتھ کھیل کے میدان کا ہونا لازمی تھا.اور باقاعدگی سے ہر سرکاری اسکول اور کالج کی تقریبا ہر کھیل کی باضابطہ ٹیم ہوا کرتی تھی.اور اب اسکولز اور کالجز, کبوتروں کے ڈربے بن چکے ہیں.کھیل کے میدان اور پارکس کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکے ہیں اور ہم سب لوگوں کا Focus تربیت,شخصیت اور کردار کے اعلی معیارات کے انتخاب کی بجائے گریڈ,عھدے,دولت اور Power کے حصول پر مرتکز ہو چکا ہے.ہمارے بچوں ہمارے گھروں میں پلنے والے Pets  کی طرح پل رہے ہیں. ان کی ہر فرمائش پوری ہو رہی ہے.لیکن ھر فرمائش کے پورے ہونے سے ان کی شخصیت اور ذہنی ساخت و سوچ پر جو Dent پڑ رہا ہے اس پر ہماری نظر نہیں جاتی.
ہم اپنے بچوں کو نظم و ضبط سیکھانے کی بجائے انہیں آوارہ اور وحشی بنا رہے ہیں. ڈگری یافتہ سند یافتہ محض اپنی خواہشات کی تکمیل میں مصروف ایسی نوجوان نسل پیدا کر رہے ہیں.جس کو نہ دین کا پتہ ہے نہ مذہب کا نہ اخلاقی اقدار کا پاس ہے نہ معاشرتی ذمہ داریوں کا نہ اپنے فرائض کا احساس ہے نہ کردار اور شخصیت کو نکھارتے رہنے کا خیال.زندگی کے ہر زاویے میں نظم اور ضبط سے عاری,خالی اور کھوکھلی شخصیت کیسے اور کیونکر کسی بھی شعبے میں ترقی کرسکتی ہے.جب سوچ کا محور محض ذات اور ذاتی خواہشات کا حصول ہو تو تنگ دلی,کنجوسی اور خود غرضی ہمارے ہر فعل,ہر عمل, ہر رویے سے ٹپکنے
لگتی ہے. اس انفرادی سوچ اور رویے نے پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے.اور اس کی بنیاد نظم و ضبط کے عدم موجودی کی وجہ سے وجود میں آئی ہے.
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی میں سے بے چینی  اور افراتفری اور بے سکونی کم ہو تو ہمیں اپنے بچپن کی تمام Fixation کو فراموش کرنا پڑے گا.Delete  کرنا پڑے گا.اپنی سوچ کی ھارڈڈسک Format کرنی پڑے گی. اور پھر سب سے پہلے اپنی موجودہ زندگی میں نظم و ضبط پیدا کرکے اس کی پریکٹس شروع کرنا ہوگی.تبھی ہم بچوں اور نوجوانوں میں سیلف ڈسپلن کے بیج بو سکیں گے.

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں