جمعہ، 18 جنوری، 2019

ندامتیں

"ندامتیں"
                     (8.8.83)
              "ڈاکٹر صابر حسین خان"

تم سے بات کرنے کو میرا
جی چاہتا تو بہت ہے
تم سے بات کرنے میں مجھ
کو کوئی عار بھی نہیں
مگر ذرا سوچو تو!
یوں سر راہ
کتنی ہی آنکھوں کے
تیروں کی زد میں
ہم جو ایک لمحے کو بھی
کہیں رک کر آمنے سامنے
کوئی بات کریں گے
تو جانے کتنے ان کہے فسانے
لبوں کا قفل کھول کر
ماحول کی بند دیواروں
میں گونجنے لگیں گے
میں بزدل تو نہیں مگر
افواہوں سے ڈر لگتا ہے
کہ کہیں کوئی سر پھری افواہ
تمھارے سر کی چادر کو
ہوا کے دوش پہ اڑاتی ہوئی
تمھارے گھر کی چار دیواری
تک نہ پہنچا دے
اور تمھاری غزالی آنکھیں
میری ڈوبتی ہوئی آنکھوں کے سنگ
ندامت کے بوجھ تلے
جھکیں اور پھر کبھی نہ آٹھ سکیں

      

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں