ہفتہ، 26 جنوری، 2019

انجام

"انجام "
                      (19.2.87)
             "ڈاکٹر صابر حسین خان"

تم جو بات مجھ سے
سننا چاہ رہی تھیں
وہ بات جب میں نے
کورے کاغذ پہ نظم کی صورت
نظروں کے سامنے کردی تو
اب تمھارے لبوں کی لرزش
سکوت کے ساگر میں
کیوں اتر گئی ہے
تمھاری آنکھیں
جو پہلے آنکھوں میں
مسلسل جھانکتی رہتی تھیں
کھبتی چلی جاتی تھی
اب جھکی جھکی سی
کیوں رہنے لگی ہیں
کیا ہر سچی بات کا آخر
یونہی دھواں دھواں ہوتا ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں