بدھ، 16 جنوری، 2019

We Are Not Wanted

"We Are Not Wanted "
                  (22.12.86)
                   "ڈاکٹر صابر حسین خان "

                          (1)
ہم سوچنے والے چپ چپ لوگ
ہمیشہ سوچتے رہتے ہیں
اپنے وقت کا ایک ایک پل
سوچ سوچ کر گزارتے ہیں
اپنی زندگی میں ایک ایک قدم
سوچ سوچ کر رکھتے ہیں
                      ………………
ہم کوئی بھی کھیل یوں نہیں کھیلتے
کہ ہم ہار جیت سے ڈرتے ہیں
ہمارا انتظار کوئی نہیں کرتا
ہم سے کوئی محبت نہیں کرتا
ہمارا انتظار کہیں نہیں ہوتا
                      ……………
چاہے کسی گلی کی پچ پہ
ٹینس کی گیند سے ہوتا ہوا
آٹھ اوور اور دو اننگز کا میچ           
یا کسی کیفے کے خواب آلودہ اور
نیم تاریک کیبن میں
چائے کی میز پہ
چوڑیوں کی کھنک ہو اور
پیرس کے سینٹ کی مہک ہو
ہمارا انتظار کوئی نہیں کرتا
ہمارا انتظار کہیں نہیں ہوتا
                          we are not wanted
                   ………………
ہمارے بارہ بجتے ہوئے چہروں
بڑھے ہوئے Shave اور بند لبوں کو دیکھ کر
ہماری چپ,ہماری سوچوں سے ڈر کر
لوگ ہمیں جھوٹی عزت دینے لگتے ہیں
سر!جناب!محترم !
بھائی!بھائی صاحب! انکل! کہہ کر
ہمیں مخاطب کرتے ہیں
جھک کر ہمیں سلام کرتے ہیں
لیکن اپنے اپنے دائرے میں
ہمیں شامل نہیں کرتے
اپنے اپنے گھر کے دروازے
ہمارے لئیے کبھی نہیں کھولتے
اور جو ہم کبھی غلطی سے
کوئی کھلا دروازہ دیکھ کر اندر قدم رکھ بھی دیں
تو ہمیں بڑی حیرت سے دیکھ کر
بڑی عزت سے باہر بھیج دیا جاتا ہے
ہم سوچنے والوں کے ساتھ
آخیر ایسا کیوں ہوتا رہتا ہے
لوگ جانے ہمیں کیا سمجھ کر
ہماری عزت کرتے ہیں
لکین ہم سے محبت نہیں کرتے
کسی مقام پہ ہمارا انتظار نہیں کرتے
               …………………
کیا ہماری اتنی بس اتنی سی ہی وقعت ہے
کہ ہم کتابیں پڑھ پڑھ کر
سوچ سوچ کر, خوں جلا جلا کر
لوگوں کے مسئلے حل کرتے ہیں
ہر گام پہ نصیحتیں کرتے رہیں
اور لوگ ہمیں کبھی انساں نہ سمجھیں
لمحہ بھر کو بھی ہم سے محبت نہ کریں
ذرا دیر ہمارا انتظار نہ کریں
                   ………………
آخیر ہم کب تک اس طرح
اپنا ہی خون پیتے رہیں گے
اپنی ہی شہ رگ کاٹتے رہیں گے
اپنے کاندھوں پہ اپنی ہی صلیب
آپ اٹھائے چلتے رہیں گے
آخیر کہیں کوئی تو ہمارا ہاتھ بٹانے کو ہو
کہیں کوئی تو ہماری ڈھارس بندھانے کو
کہیں کوئی تو ہمارے آنسو پونچھنے کو ہو
کہیں کوئی تو صرف ہمیں دیکھنے کو ہو
کہیں کوئی تو ہمارا انتظار کرنے کو ہو
                         ………………
                         (2)
ہم جو ہمیشہ پڑھتے رہتے ہیں
سوچتے رہتے ہیں, لکھتے رہتے ہیں
کتابوں کو, انسانوں کو
زندگی کے پراسرار تہہ خانوں کو
کوئی ہم سے محبت نہیں کرتا
کسی بھی جگہ
کسی کو بھی ہمارا انتظار نہیں ہوتا
ذرا سی دیر کو بھی
کوئی ہمیں اور ٹہرنے کو نہیں کہتا
کسی کی بھی سماعت
فون پہ ہماری آواز سننے کو نہیں ترستی
کسی کی بھی گویائی
ہماری توجہ اپنی طرف کرنے کو نہیں لرزتی
کسی کی بھی بینائی
ہماری آنکھوں کے آئینے دیکھنے کو نہیں ٹھٹکتی
کسی کے پرسنل انڈیکس میں
ہمارا فون نمبر درج نہیں ہوتا
کوئی بھی نئے سال کی ڈائری میں
ہمارے جنم دن کی تاریخ مارک نہیں کرتا
کوئی بھی ساحل کی ٹھنڈی ریٹ پہ
انگلیوں سے ہمارا نام لکھ کے
لہروں کا بھی قلم
رات گئے,دن ڈھلے,شام سمے
کتابوں میں یا رف کاپیوں میں
یا اخبار کے زرد کاغذوں پہ
ہمارے نام کے دائرے نہیں کاڑھتا

                                                

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں