جمعرات، 24 جنوری، 2019

شام ڈھلے

"شام ڈھلے"
                      (12.12.87)
               "ڈاکٹر صابر حسین خان"

'ہجر کی شب اور ایسی شب
کاش کہ کسی نے ہم کو پکارا نہیں ہوتا,
گھر سے نکلیں گے تو کئ در کھلیں گے
پتھریلی دیواروں کے بیچ
راستوں کا اندازہ نہیں ہوتا
کب تک عشق کو کام سمجھ کر کرتے رہیں
اب تو اکیلی جان کا گزارہ نہیں ہوتا
چپ کی مھر لگی رہے
تو بھید کھلنے لگتے ہیں
آب رواں کا کبھی کوئی کنارہ نہیں ہوتا
باہر آئیں گے تو آپ ہی جان جائیں گے
ہم جیسے درویشوں کا
کسی آسمان پر کوئی ستارہ نہیں ہوتا
اندھیری رات کے تنہا مسافروں کو
روشنیوں کا کبھی بھی سہارا نہیں ہوتا
یہ کیسا روگ دل کو لگا ہے کہ اب
شام ڈھلتے ہی
کسی کام کا ارادہ نہیں ہوتا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں