جمعرات، 24 جنوری، 2019

آخری آدمی

"آخری آدمی"
                   (29.6.88)
               "ڈاکٹر صابر حسین خان"

لفظ پھڑ پھڑاتے ہوئے اڑ رہے ہیں
سیاہ صفحوں پر
وقت کے پنجوں نے
زردنشاں ثبت کر دیے ہیں
جو جذبے کبھی
ہڈیوں کے گودے میں
خون بن کر دوڑتے تھے
اب دوکھ کی دیمک کے ہاتھوں
مٹی مٹی ہوگئے ہیں
لفظوں کی حرمت نے
جذبوں کی حرارت نے
آدم زادوں کی سیاست کے سامنے
سر جھکا دیا ہے دم توڑ دیا ہے
لفظوں کا بھرم اور جذبوں کا جنون
نئی روشنیوں میں کہیں کھو چکے ہیں
اس صورت میں
جب ہر آنکھ میں
اندھیرے کی حکمرانی ہو
کوئی زباں کھولے تو کیا بولے
کوئی قلم اٹھائے تو کیا لکھے
کوئی کسی کی جانب
اپنا ہاتھ بڑھائےتو کیا سمجھے
کیا جانے
دل سے کوئی بات
کوئی جذبہ
کوئی حرف کوئی ادا
کوئی مانے تو کیا مانے
کیوں مانے
اس صورت میں کیوں نہ ہم پھر
اپنے اپنے لفظوں
اور اپنے اپنے جذبوں کی
سچائی کی گواہی میں
اپنی اپنی زبانوں پر
چپ کے انگارے رکھ لیں
اپنے اپنے قلم توڑ کر
ہر کتاب کو راکھ کر
اور ہر خواب کو بانجھ کردیں
ہوسکتا ہے اس طرح
پھر سے خدا
ہم سب پر مہربان ہوجائے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں