جمعرات، 31 جنوری، 2019

سیلف مینیجمنٹ

"سیلف مینیجمنٹ" نیا کالم /مضمون
دعاگو. ڈاکٹر صابر حسین خان"

مہلت مل جائے تو بہت سہولت ہو جاتی ہے کئی ادھورے کام ہو جاتے ہیں.لیکن مہلت بار بار نہیں ملتی. ھر کام میں نہیں ملتی.لاوڈ اسپیکر پر با آواز بلند اعلان کرکے نہیں ملتی. اور یہ بھی ہے کہ ھر ایک کو نہیں ملتی.بہت بار ہم بہت سے کاموں, بہت سی باتوں میں مہلت چاہ رہے ہوتے ہیں.مہلت مانگ رہے ہوتے ہیں.بگڑی باتوں کو سنوارنے کیلئے ادھورے کاموں کو نپٹانے کیلئے لیکن گھنٹی بج جاتی ہے. وقت پورا ہو جاتا ہے.پرچہ ھاتھوں سے لے لیا جاتا ہے.دیکھے بنا,پوچھے بنا کہ سوالوں کے جواب پورے ہوئے ہیں یا نہیں.مہلت ختم ہو جاتی ہے.اوورز ختم ہو جاتے ہیں.میچ ختم ہو جاتا ہے.ٹارگٹ پورا نہیں ہو پاتا.رنز پورے نہیں ہو پاتے.
ایسا بہت بار ہوتا ہے.ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے.مگر پھر بھی ہم ہر بار,ہر بات,ہر کام میں مہلت کے طلبگار ہوتے ہیں.ابھی بہت وقت پڑا ہے. دیکھ لیں گے, ہو جائے گا, کر لیں گے. مگر ہوتے ہوتے کچھ بھی پورا نہیں ہو پاتا. کچھ نہ کچھ رہ جاتا ہے.آخری وقت تک ھڑبوڑ مچی رہتی ہے.ایک انچ کی کسر ضرور رہ جاتی ہے.
بہت کم لوگ تھوڑے کو بہت سمجھتے ہیں.اور وقت سے پہلے اپنے کام, اپنے پروجیکٹ پورے کر لیتے ہیں. ایسے لوگ سکون میں رہتے ہیں. اور ایسے لوگوں کے ساتھ جو لوگ رہتے ہیں یا رہنے پر مجبور ہوتے ہیں.وہ بے چارے عام طور پر ذرا بے سکونے رہتے ہیں. کیونکہ وقت کے دائرے میں رہنے والے, اپنے وقت کو صحیح طرح استعمال کرنے والے, مہلت ختم ہونے سے پہلے اپنے کام ختم کرنے والے لوگ عام طور پر یہی توقع یہی خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ رہنے والے بھی ان کی طرح ذرا ذیادہ Meticulous ذرا ذیادہ Methodical ذرا ذیادہ Meshy ہوں. اور ان کی طرح اپنے سب کام وقت پر یا وقت سے پہلے ختم کر لیں.
لکین ایسا ہوتا نہیں انسان کو عمومی نفسیات میں چونکہ کاہلی اور تساہل فطرتا شامل ہوتے ہیں تو زیادہ تر لوگ اپنے کاموں کے حوالے سے ڈھلیے رہتے ہیں.یہاں تک کہ کاموں کے ختم ہونے کا وقت آجاتا ہے. اور کام پورے نہیں ہو پاتے.
معاشرتی ابتری اور افراتفری اور بے سکونی کی ایک اہم وجہ احساس ذمہ داری کا نہ ہونا ہے. جس کے نہ ہونے سے ہر گھر, ہر دفتر, ہر جگہ آدھے اور ادھورے کاموں کا ڈھیر جمح رہتا ہے اور دن بہ دن ان میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے, احساس ذمہ داری کے نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہمارا تعلیم وتربیت کا نظام ہے. جو ہمیں زندگی کے کسی بھی درجے پر یہ نہیں سکھاتا کہ ہماری زندگی میں وقت کی کتنی اہمیت ہے اور  ہمیں کیسے اور کس طرح اپنے وقت کو مناسب اور متناسب انداز میں استعمال کرنا چاہیئے.
کسی بھی شخص میں احساس زمہ داری اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتا, جب تک اسے وقت کی قدر و قیمت کا اندازہ نہ ہو.ایک وقت ایسا آتا ہے جب ہم ادھیڑ عمر میں جاکر سیلف ھلیپ اور ٹائم منیجمنٹ کے ورکشاپس اور سمینارز باقاعدہ پیسے دے کر Attend کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں. کیونکہ ہم اپنے کاموں, اپنی چیزوں کو اتنا پھیلا چکے ہوتے ہیں کہ پھر ہمیں وقت پر ان کو سیمٹنا نہیں آپاتا.لیکن ہر بات,ہر کام, ہر شے اپنے وقت پر ہی اچھی لگتی ہے.فجر کی نماز عشاء کے وقت پڑھنے کا فائدہ نہیں ہو پاتا. وقت کی اہمیت اگر بچپن سے ہی ہمارے ذہنوں میں جگہ نہ کر پائے اور ہماری تعلیم اور تربیت میں اس حوالے سے ہماری کوئی نگرانی اور نگہبانی نہ ہو تو ہم آگے چل کر اپنے اپنے کاموں میں خواہ کتنی ہی Excellence کیوں نہ حاصل کر لیں. ہمیں ہر قدم پر اپنے ہر کام میں وقت کی کمی کا احساس رہے گا اور ہم کبھی بھی اپنے وقت کا بھرپور اور موثر استعمال نہیں کرسکیں گے.
اگر ہم اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیں تو ہمیں ہم سمیت سبھی لوگ اپنے اپنے کام کرنے کے دوران بھی بہت سطحی اور اوپری دل سے اپنے کام نمٹاتے ہوئے یا بھگتاتے ہوئے دکھائی دیں گے بہت ہی کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو پوری توجہ پورے دل سے اپنا کام کررہے ہوتے ہیں ہم سب کا دوران کام اور دوران فراغت سب سے دلچسپ مشغلہ اور سب سے پسندیدہ کام باتیں کرنا ہوتا ہے. جب تک ہم آٹھ میں سے کم از کم چار گھنٹے دل کھول کر دنیا کے ہر موضوع, ہر Issue پر گفتگو نہ کر لیں,اس وقت تک ہماری انرجی چارج نہیں ہو پاتی. دو گھنٹے جتنا کام بھی پھر ہمیں آٹھ گھنٹوں میں پورا کرنا مشکل لگتا ہے.نتیجتا ہمارے کام ادھورے رہتے ہیں. اور ادھورے کاموں کا ڈھیر جمح ہوتا رہتا ہے.
احساس ذمہ داری ان لوگوں میں زیادہ ہوتا ہے جو اپنی ذات اور اپنی شخصیت میں نظم و ضبط کے عادی ہوتے ہیں. Self Management وہ پہلی سیڑھی ہے جو ہمیں خود کار طریقے سے ازخود Time Management کی منزل تک پہنچا دیتی ہے اور جس شخص میں یہ دونوں عوامل ساتھ ساتھ چل رہے ہوں تو وہ بڑے آرام اور سکون سے 24گھنٹے مصروف رہ کر بھی 24گھنٹے فارغ رہ سکتا ہے. اور بڑی خوش اطواری سے زندگی کے ھر معاملے, ھر کام کے لیئے وقت نکال لیتا ہے. اسے کبھی یہ نہیں کہنا پڑتا کہ فلاں کام کیلئے اسے وقت نہیں ملا یا وقت نہیں بچا.اس کے تمام کام اپنے اپنے مقررہ وقت سے ذرا پہلے ہی ختم ہوتے چلے جاتے ہیں.اور اسے روٹین سے ہٹ کر دیگر نئے کام کرنے کا موقع بھی مل جاتا ہے اور قدرت بھی اسے عام لوگوں کی بہ نسبت,مہلت فراہم کرتی رہتی ہے.
قدرت بھی انہی کا ساتھ دیتی ہے جو قدرت کی عطا کردہ سب سے زیادہ قیمتی نعمت یعنی وقت کو ضائع نہیں کرتے اور اپنے پل پل کو امانت سمجھتے ہوئے برتتے اور استعمال کرتے ہیں وقت کی قدر و قیمت اور اہمیت کا نکتہ جن لوگوں کی سمجھ میں آجاتا ہے. وہ پھر بڑے مطمئن ہو جاتے ہیں. کیونکہ ان کے پاس اپنے تمام کاموں کو پورا کرنے اور تمام مسئلوں کے حل کیلئے جستجو کرنے کی گیدڑ سنگھی ہاتھ آجاتی ہے. وہ اپنی شخصیت اور اپنی نفسیات کے انجن کو آٹو پائلٹ پر ڈال کر سکون سے نت نئے  Ventures کیلئے وقت نکال لیتے ہیں.
ایسے لوگوں کے پاس کام, آرام, تفریح اور سماجی تعلقات سبھی باتوں کیلئے وقت نکل آتا ہے.وہ عام لوگوں کی بہ نسبت مصروف بھی زیادہ رہتے ہیں اور ان کے مشاغل کی فہرست بھی دیگر لوگوں کی بہ نسبت زیادہ لمبی ہوتی ہے. ان کے پاس صرف ایک چیز کیلئے بالکل وقت نہیں ہوتا.فضول,بے مقصد اور ادھر ادھر کی باتوں کیلئے وہ سب کو وقت دے رہے ہوتے ہیں. دوستوں کو, رشتہ داروں کو, پڑوسیوں کو, ملنے جلنے کو,اجنبیوں کو.لیکن وہ یہ وقت بھی یہاں وہاں کی باتوں میں ضائع نہیں کرتے.ان اوقات اور لمحات میں بھی یہ عام طور پر دیگر لوگوں کے دل کا حال سننے اور ان
کے مسئلوں کا حل تجویز کرنے میں گزرتا ہے.ان کا Focus ہمیشہ حال پر رہتا ہے. کام کے وقت دل سے بھر پور کام اور تفریح کے وقت بھرپور تفریح وہ کسی ایک کام کو دوسرے کام کے بیچ حائل نہیں ہونے دیتے.خود کو ھر طرح کے بحث مباحثے سے دور رکھتے ہیں. نہ کسی نہ کسی کا دل دکھاتے ہیں. نہ بلاوجہ کسی کا دل رکھتے ہیں اختلاف رائے کی صورت میں دو جملوں میں اپنا نکتہ نگاہ بیان کرکے خاموش ہوجاتے ہیں اور ہوں ہاں کرکے غیر ضروری گفتگو کو طول دینے سے گریز کرتے ہیں.
کبھی کسی ایسی بات,ایسے کام میں ہاتھ نہیں ڈالتے جو ان کی دسترست سے دور ہو یا جسے وہ کرنے کی اہلیت نہ رکھتے ہوں ان کو علم ہوتا ہے کہ کب ان کو  نہ کہنا ہے اور کب ہاں کب آگے بڑھناہے.کب پیچھے پلٹ آنا ہے. کب کسی معاملے سے دوری اختیار کرنی ہے. کب کس مسئلے کو اپنے ہاتھ میں لینا ہے. کون سا کام خود کرنا ہے کون کون سے کام اپنے ساتھ کے لوگوں کو تغویض کرنے ہیں کسی پروجیکٹ میں کتنی توانائی, کتنا وقت صرف کرنا ہے. کسی کام کو ادھورا چھوڑ کر نیا کام شروع کرنا ہے.کتنے گھنٹے سونا ہے.کتنا وقت مطالعہ کو دینا ہے صحت کے تینوں دائروں میں اپنی توجہ کی تقسیم کیسے کرنی ہے جسمانی صحت کو برقرار رکھنے کیلئے کیا کیا کرنا ہے. ذہنی و جسمانی صحت کو کیسے نشوونما فراہم کرنی ہے. روحانی صحت کی سرشاری کیلئے کون سے کام کرنے ہیں.
غرضیکہ ہر بات,ہر کام,ہر فرد, ہر شے کیلئے کسی وقت کون سا Measures اختیار کرنے ہیں اور کن باتوں کن چیزوں سے اجتناب برتنا ہے. اپنی ذات میں نظم و ضبط کا سلیقہ اسی وقت آتا ہے. اسی صورت آسکتا ہے جب ہم اوائل عمر سے اپنی زندگی کو Monotonous رکھنے کی بجائے Multi dimensional رکھنے کی خواہش رکھیں کوشش کریں اور بار بار کی مشق کریں اور اس مشق سے گھبرائیں نہیں کترائیں نہیں دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک کام خود اپنے آپ کو Tame کرنا ہوتا ہے. اپنے آپ کو سدھارنا اور نکھارنا ہوتا ہے. اپنے اندر کے خلفشار کو ختم کرکے اپنی Tunning کرنا ہوتا ہے اور یہ کام جادو کی چھڑی پھیرنے سے نہیں ہوسکتا. اس کیلئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں. فراغت اور مہلت یونھی نہیں مل جاتی اس کیلئے خود کو ہمہ وقت مصروف رکھنا پڑتا ہے.ہمہ وقت چاق و چوبند رکھنا پڑتا ہے. ہمہ وقت چوکس و چوکنا رہنا پڑتا ہے. ہمہ وقت آنکھیں کھلی رکھنی پڑتی ہیں پھر کہیں جاکر قدرت کا انعام ملتا ہے مہلت اور فراغت چاہیے تو خود کو مثبت کاموں میں مصروف کر لیجئے اور اہم اور غیر اہم کاموں کے بیچ فرق کو سمجھنے کی کوشش کیجیے اور سب سے اہم بات یہ کہ خود کو غیر ضروری باتوں کے نشے سے دور کر لیجئے. غیر ضروری باتوں سننے سے بھی اور کرنے سے بھی آپ کی ذات میں ازخود نظم و ضبط آتا چلا جائے گا.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں