بدھ، 23 جنوری، 2019

دنیا بڑی ظالم ہے مگر

"دنیا بڑی ظالم ہے مگر"
                      (1.8.88)               
            "ڈاکٹر صابر حسین خان" 

ہم لوگ جو سوچتے ہیں
جو خواب دیکھتے ہیں
اور جس طرح چاہتے ہیں
ویسا دنیا میں
کہیں بھی نہیں ہوتا
دنیا اتنی بڑی ہے لیکن
رنیا بڑی ظالم بھی ہے
وہ سوچ کے دریا پر
مصلحت کے بند باندھ دیتی ہے
حوالوں کی شمع کو
عذابوں کی ہوا سے
بجھا دیتی ہے
خواہشوں کی خوشبو کو
زندگی کی تلخ حقیقتوں کے
سلگتے ہوئے جہنم میں دال کر
بھول جاتی ہے
دنیا بڑی ظالم ہے مگر
دل کی دلیل کے آگے
بڑی بڑی رکاوٹیں
دم توڑ دیتی ہیں
دل ضد پر آجائے تو
سمندر بھاپ بن کر
اڑ جاتے ہیں
آسمان نیچے اتر کر
پہاڑوں کے دامن میں
ستارے چھوڑ جاتے ہیں
بنجر زمین کی کوکھ سے
مہکتے ہوئے گلستاں
یکدم پھوٹ نکلتے ہیں
لیکن یہ دنیا بڑی ظالم ہے
اتنی ظالم ہے کہ دل کو
ضد پر آنے ہی نہیں دیتی
دل کی دلیل کو
سر اٹھانے سے پہلے ہی
فکر فردا کے ہاتھوں
دماغ کی سولی پر چڑھا دیتی ہے
مگر پھر بھی اگر کبھی
دل ضد پر آجائے تو
اپنے ہی خون کے شراروں سے
اس ظالم دنیا کے لیے
محبتوں کے نئے باب
کھول جاتا ہے
چاہتوں کے نئے گلاب
کھلا دیتا ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں