پیر، 14 جنوری، 2019

ہر پل بدلتی زندگی

نئی"ھر پل بدلتی زندگی " ڈاکٹر صابر حسین خان

نیا رجسٹر ہے.پرانا ھراپار کا قلم ہے.آج صبح کیلکولیڑ لینے جس دکان پر گیا.وہاں یہ خوبصورت رف صفحات, کم قمیت,چھوٹے Size کے رجسٹر نظر آئے تو 6 عدد لے لئیے .دو کلینک میں رکھ دئیے تین اقرا کو دے دئیے.ایک پر اب رات لگ بھگ ڈیڑھ بجے لکھنے کے شوق میں لکھنا شروع کر دیا ہے.مضمون کی کیا صورت بنے گی.خیال کی رو کہاں سے کہاں جائے گی. نہیں پتہ.بس یہ ہے کہ جی اداس نہیں فی الوقت تو,توانائی کیسی مثبت زاویہ نگاہ کو ہی Highlight کرے گی انشاءاللہ .
دل تو چاہ رہا ہے کہ رات کے اس پہر جب نیند نےسب کو اپنی آغوش میں لے رکھا ہے, نیند بھگا دینے والی کہانی کوئی کہی جائے.دل کے تاروں کو چھوتی ہوئی انسان اور انسان کی محبتوں کی کہانی, رویوں, جذبوں, دکھوں,امیدوں اور خوابوں کی کہانی. تنہائی کی کہانی,تنہائی کی محفلوں کی کہانی.
ھر فرد کی زندگی اور زندگی کے حالات کی طرح اس کی کہانی بھی الگ ہوتی ہے.ھر فرد کیلئے اس کی کہانی دنیا کی تمام کہانیوں اور تمام  باتوں سے زیادہ رنگین وسنگین اور اہمیت کی حامل ہوتی ہے. زندگی کے ھر دور میں ھر فرد کی کہانی مدوجز,کا شکار ہوتی ہے.کچھ کردار In ہوتے ہیں. کچھ کردارخاموشی سے Out ہوجاتے ہیں. حاضر منظر  سے  نکل کر پس منظر میں چلے جاتے ہیں.
کچھ کرداروں کا Impact رہتی عمر تک رہتا ہے. کچھ مہمان اداکاروں کا Role ادا کر کے ہمیشہ کیلئے Fade out ہو جاتے ہیں. کبھی دوبارہ نہ ملنے نہ آنے کیلئے کچھ زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں.
کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ کب اس کی یکسانیت سے بھرپور کہانی میں Twist آجائے یا اچھل کود سے بھرپور زندگی سکوت و ٹہراو  کے سمندر میں اتر جائے .کبھی کبھی پوری زندگی, عمر قید میں گزرتے گزرتے خاتمے کی جانب ہوتی ہے تو اچانک کہیں سے کوئی اجنبی محبت بھرا دل آزادی کی کنجی تھامے نمودار ہوجاتا ہے. تو کبھی تمام عمر ,شوق آوارگی ٹوٹے پتوں کی طرح ادھر سے ادھر اڑاتا پھرتا ہے تو ایسے میں کوئی مہربان. کوئی ہمدم,زخموں سے چور بدن کو مرہم لگانے اور گھر گھر سستی کے سکون میں بند کرنے ہماری مدد کو چلا آتا ہے.
کچھ پتا نہیں چلتا.کب کیا ہوجائے. بس یونہی یکدم سے کچھ ہو جاتاہے.دیکھتےہی دیکھتے گہرے سرمئی بادل چاروں اور اندھیرا کرکے بارش برسانا شروع کر دیتے ہیں.دیکھتے ہی دیکھتے یکدم سورج,بادلوں کی آوٹ سے نکل کر اجالا کر ڈالتا ہے. کسی بات کا پتہ نہیں چلتا.
کس لمحے کیا ہوجائے. کیا سے کیا ہو جائے.Routine سے بھرپور زندگی کا اچانک Tempo ختم ہو جاتا ہے. کچھ نیا ہو جاتا ہے. ایسا کچھ ہوجاتا ہے جو سوچ میں بھی نہیں ہوتا. کبھی تو بجھا ہوا دل. نئی نمو نئی حرارت پاکر دوبارہ دھڑکنے لگتا ہے. تو کبھی ھنستا مسکراتا شاداب چہرہ,غم اور اداسی کی زرد چادر اوڈھ لیتا ہے.
کب اوپر سے کسی بات کا Order آجائے.اود وہ ہوجائے.کچھ پتہ نہیں چلتا. ہم تیار ہوں یا نہ ہوں. ہمیں امید ہو یا نہ ہو.ہمارے دل میں اس بات کی خواہش ہو یا نہ ہو.ہمارے چاہنے نہ چاہنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا. یہاں تک کہ کسی خاص خیال کو لفظوں کی شکل دینے بیٹھا جاتاہے.لیکن تحریر کی تصویر جب پوری ہوتی ہے تو متن اور حوالوں سے لیکر مرکزی خیال تک سبھی کچھ بدل چکا ہوتا ہے.
گول گپے کھانےکی نیت سے باھر نکلتے ہیں. آئسکریم کھاکر واپس آجاتے ہیں. دل پر پھتر رکھ کر فیصلہ کر لیتے ہیں کہ اب کسی پر اعتبار نہیں کریں گے. مگر پھر کچھ عرصے بعد ہی کیسی معصوم صورت سے دھو کہ کھا بیٹھتے ہیں.ایسا کیوں ہوتا ہے?-کسی کو نہیں پتہ.لکین ایسا سب ہی کے ساتھ ہوتا ہے. کسی کسی کے ساتھ اکثر اور کسی کسی کے ساتھ کبھی کبھار. کبھی انتہائی معمولی,نہ محسوس ہونے والی,ان چاہی بات ہوجاتی ہے. اور کبھی انتہائی معمولی, نہ محسوس ہونے والی,ان چاہی بات کے اثرات تمام عمر ہماری گرہ سے بندھے رہتے ہیں.
بات کیسی بھی ہو.یہ بات طے ہے.زندگی بدلتی رہتی ہے.کبہی کسی بات کی وجہ سے کسی فرد کے آنے یا جانے کی وجہ سے کسی وقعے یاسانحے کی وجہ سے تبدیلی جاری رہتی ہے. کبھی بہت آھستگی سے غیر محسوس طرح سے اور کبھی اچانک,یکدم,آنافانا,بنا کسی دستک کے دھڑام دھڑوم کی آواز آتی ہے.اور ہمارے اندر اور باہر سب کچھ بدل جاتا ہے. ہماری مرضی کے خلاف .ہمارے خواب و خیال کے گمان سے بالکل ہٹ کر.
ہم چاہیں نہ چاہیں ہمیں تبدیلیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں. ہم میں سے کچھ لوگ بہت Flexible ہوتے ہیں. لچکدار ہوتے ہیں. روزانہ بھی ان کو کسی تبدیلی کا سامنا کرنا پڑے تو بآسانی اسے قبول کرتے چلے جاتے ہیں. اس کے مطابق خود کو ڈھالتےچلے جاتے ہیں. لکین زیادہ تر لوگوں کیلئے کسی بھی تبدیلی کو دل سے قبول کرنا مشکل ہوتا ہے. وہ مجبورا خود کو بدلتے ہوئے حالات کے تحت Adopt کرنے کی کوشش تو کرتے ہیں. لیکن ان کے اندر ان کے وجود کا ایک اہم حصہ باقی ماندہ عمر کیلئے باغی ہوجاتا ہے. وہ کسی بھی نئی تبدیلی کے مطابق نہ تو ڈھل پاتا ہے اور نہ ہی برضا ڈھالنا چاہتا ہے.
اور یوں ایسے تمام لوگوں کے اندر ایک جنگ شروع ہو جاتی ہے. آہستہ آہستہ ان کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتی ہے. سوچیں پراگندہ اور خیالات منتشر ہونے لگتے ہیں. انجانی اداسی کے سائے ان کی روح میں تاریکی پھیلانے لگتے ہیں. اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب خلا کے مہیب سناٹے ان کے خون میں سرسرانے لگتے ہیں. یہاں سے واپسی کا سفر پھر ممکن نہیں رہتا .نہ ہمت بچتی ہے نہ خواہش Point of No Return پر پہنچ کر ایسے لوگ زندہ ہوتے ہوئے  بھی زندوں میں نہیں رہتے.نہ ٹلنے والی ناگزیر تبدیلیوں کو دل سے قبول نہ کرنے پر عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے.
مشکل ضرور پیش آتی ہے. زندگی کے کسی بھی نئے موڑ پر آنے کے بعد کسی بھی نئی تبدیلی کو گلے لگانا آسان نہیں ہوتا. بس بات ذہن کے دریچوں اور دل کے دروازوں کو کھلا رکھنے کی ہوتی ہے. نگاہوں اور سماعتوں کو بھی چوکنا رکھنا پڑتا ہے.پھر جو کچھ ہوتا ہے. ہمارے باہر اور ہمارے اندر جو بھی تبدیلی آتی ہے. جو کچھ بھی بدلتا ہے. وہ ازخود ہماری ذات کا حصہ بن جاتا ہے. لکین تبدیلیوں کے عمل میں, تبدیلیوں کو قبول یا رد کرنے کے عمل میں ایک نکتہ نہایت اہم ہوتا ہے. اور عام طور پر ہم اسی نکتے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے.
تبدیلی دو طرح کی ہوتی ہے. ایک تبدیلی ہم خود لانے کی کوشش کرتے ہیں. اور دوسری طرح کی تبدیلی ازخود آتی ہے. ہمارے علم میں آئے بغیر ہمارے شعور کاحصہ بنے بغیر ہماری خواہش یا کوشش یا جستجو یا تگ ودو کے بغیر.
جو تبدیلی ہماری خواہش و کوشش سے آتی ہے. اسے برقرار رکھنے میں اچھا خاصا خون پسینہ بہانا پڑتا ہے. بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں. لکین جس تبدیلی کا ازن,قدرت کی طرف سے ہوتا ہے. جو انتہائی خاموشی سے اچانک ہماری زندگی کا حصہ بنتی ہے. اسمیں کسی خودرو اگنے والے جنگلی پودے کی طرح بڑی مضبوطی بڑی جان ہوتی ہے. اس میں پنپنے اور بڑھنے کی بڑی اہلیت ہوتی ہے. اس طرح کی تبدیلی میں عام طور پر قدرت کی کوئی مصلحت ہماری پوشیدہ ہوتی ہے. یہ مصلحت ہماری سمجھ میں آجائے تو زندگی بہت سھل ہو جاتی ہے. اور جو ہم اپنی کم علمی کم فہمی سے اس کو سمجھ نہ پائیں اور پھر بھی اسے قبول کرلیں .اپنا سر جھکا دیں.Surrender کردیں.تب بھی جلد یا بدیر یہ ہمارےلئیے کارآمد ہی ثابت ہوگی.بس بات اس کو قبول یا رد کرنے کی ہے.ماننے والے عافیت میں رہتے ہیں. ترک کر دینے والے پچھتاتےرہتے ہیں.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں