بدھ، 30 جنوری، 2019

سچے اپنوں کا انتخاب کیجئے

"سچے اپنوں کا انتخاب کیجئے" نیا کالم/مضمون
دعاگو. "ڈاکٹر صابر حسین خان"

"میں نے منیجر سے بات کرلی ہے.تم چیک دوبارہ ڈلوادو.کلئیر ہوجائے گا."
فرحان کا جب فون آیا تو اس وقت تک میں,اس بینک کے اسسٹنٹ منیجر سے بات کرچکا تھا. اس بینک کے سات ارب روپے نیب یا سپریم کورٹ یا پتہ نہیں کس نے freeze کردئیے تھے.منی لانڈرنگ,کرپشن یا پتہ نہیں کس وجہ سے اور چونکہ مذکورہ  بینک میں میرا بھی اکاؤنٹ تھا گزشتہ آٹھ نو سال سے اور کچھ پیسے اسمیں پڑے ہوئے تھے. تو حفظ ماتقدم میں اسمیں سے پیسے نکلوارہا تھا. اور چونکہ مجھے فرحان کو بھی پیسے دینے تھے تو اسے چیک دے رہا تھا.
  "آپ الیکشن اور کرپشن پر کیوں نہیں لکھتے میں تو کہتا ہوں کہ اگلے الیکشن میں, صوبائی حلقے سے آپ بھی آزاد امیدوار کھڑے ہوجائیں." فرحان نے مشورہ دیا.
  "میں بہت سی جگہوں پر گیا ہوں.زندگی میں پہلی بار آزاد امیدواروں کے بینرز دیکھے ہیں.یہ ساری سیاسی پارٹیاں کرپٹ ہیں. ایک سے بڑھ کر ایک جب تک عام آدمی میرے اور آپ جیسے آدمی اپنے اپنے حلقوں کے مسئلوں کے لیے آگے نہیں آئیں گے.تب تک یہ سیاسی پارٹیاں اسی طرح ہم آپ کو بےوقوف بناکر اپنا الو سیدھا کرتی رہیں گی.آپ ذرا سوچیں.ڈیمز بنوانا حکومتوں کا کام ہے یا عام آدمیوں کا یہ سب…… گزشتہ 30 سالوں میں ہم سب سے پیسہ لوٹ کر باہر لے گئے اور کھربوں پیتی بن گئے اور اب ہمیں اپنے دو تین لاکھ روپے بچانے مشکل ہو رہے ہیں کہ کہیں وہ بھی ڈوب نہ جائیں اور بینک بند نہ ہو جائے. لاکھ دو لاکھ لوگوں کو ……کردینا چاہیے سب مسئلہ حل ہوجائے گا.فرحان دل سے کہہ رہا تھا.میرا بھی دل دکھا ہوا تھا.اور سب سے بڑی بات مذکورہ بینک کے نام کو خبروں کی زینت بنتے ہوئے دیکھ کر اور پڑھ کر میری اپنی کاہلی اور سستی پر بھی ضرب پڑگئی تھی.اسکا غصہ الگ تھا کہ اب پھر کسی اور بینک کے چکر کاٹنے پڑیں گے.آجکل بینک اکاؤنٹ کھلوانا بھی سرکار کے دیگر کاموں کی طرح دشوار ہے.
اکاؤنٹ تو پھر بھی کھل جائے گا کبھی نہ کبھی ہماری جذبائیت سے نچڑی قوم کی سب سے بڑی دشواری یہ ہے کہ وہ فطرتا Anti Hero ہے. پہلے جذبات میں اندھی گونگی ہوکر بت تراشتی ہے اسے اپنے کندھوں پر سوار کرتی ہے.اور پھر جو نہی شخصیت پرستی کی ماری قوم اپنے تراشے ہوئے بتوں سے بیزار ہوتی ہے تو کل کا ھیرو آج کا اینٹی ھیرو قرار پاتا ہے.یکدم ولن بن جاتا ہے اور ایسا ھر اس قوم ھر اس ملک میں ہوتا ہے.جہاں انفرادی,خاندانی اور ملکی و حکومتی ہر سطح پر کسی قسم کا کوئی نظام,کوئی سسٹم نہیں ہوتا.ہر فرد محض اپنے لئے جیتا ہے. اجتماعی اور قومی فائدوں کا سوچتے ہوئے سب کے پر جلنے لگتے ہیں.ذاتی مفاد,خود غرضی اور نفسانفسی یہ تینوں عناصر آج ہماری قوم کا ناسور بن چکے ہیں.کیاصحیح ہے کیا غلط کیافرق پڑتا ہے. جو ملتا ہے اور جیسے ملتا ہے لے لو, چھین لو,قبضہ کر لو, صحیح کام بھی غلط طریقے سے کرنا ہے.اور غلط طریقوں کے کاموں کو اور فروغ دینا ہے.
جیسی کرنی ویسی بھرنی ہماری قوم ستر سال سے جو بوتی رہی ہے.اپنے حکمرانوں کی شکل میں کائتی رہی ہے.ہم اگر چار روپے کی چوری کریں گے تو ہمارے سروں پر چار ارب چرانے والوں کو ہی مسلط کیا جائے گا. قوانین قدرت کبھی کسی قوم کے لیے نہیں بدلے.
آج ہمیں قدرت پھر ایکبار موقع دے رہی خود کو بدلنے کا ہم صدق دل سے توبہ کریں گے اورخود کو بدلنے کا عھد کریں گے تو لامحالہ نئے حکمرانوں کے انتخاب کے دن ہمارے دل میں صحیح نشان پر ٹھپہ لگانے کا خیال ہو گا ہم سچے بننے,دیانت دار اور ایماندار بننے اور خلوص سے لوگوں کی خدمت کا جذبہ رکھنے کی اندرونی خانہ تبدیلی لائیں گے تو اس کی روشنی باھر بھی پھیلے گی شمع سے شمع جلے گی. آج اور اسی لمحے اپنی ذات کو بدلنے کا وعدہ کرلیجئے.اپنے اندر سچائی اور حق گوئی کو لانے اور پروان چڑھانے کا عھد کرلیجئے.ازخود ہماری آنکھوں پر سے پردہ ہٹ جائے گا اور ہمیں اپنوں اور سچوں کی پہچان ہو جائے گی.
نعروں چھوٹے وعدوں بڑی بڑی باتوں اور کرپشن میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو خود سے دور کر لیجئے جذباتیت اور ذاتی مفاد کے بت توڑ دیجئے. میرٹ کا نظام اپنی ذات,اپنے گھر,اپنے خاندان کے ساتھ قوم و ملک کیلئے بھی لاگو کیجیے.میرٹ کی بنیاد صرف سچائی,ایمانداری اور دیانتداری ہونا چاہیئے. میرٹ کے نظام میں مستحق کو اسکا حق ملتا ہے. میرٹ کے نظام میں کوئی اپنا نہیں ہوتا,کوئی پرایا نہیں ہوتا. میرٹ کا فیصلہ تقوی, اخلاق, علم, کام,   خلوص اور دیانتداری پر ہوتا ہے.جو سچا ہے وہ اپنا ہے. جو جھوٹا ہے اور بے ایمان ہے اور ذاتی مفادات کا شکار ہے وہ خواہ سگا اور خونی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو وہ پرایا ہے.
اپنے سچے اپنوں کا انتخاب کیجیے ذاتی پسند کو قوم و ملک کی فلاح کیلئے قربان کردیجئے.اعلی ذاتی کردار اور شخصیت کے حامل لوگوں کو اپنا حکمران چنیئے.
ایسے سچے اور دیانتدار لوگ دھوکہ نہیں دیتے. چوری نہیں کرتے.ایسے لوگ منتخب ہوکر خلوص اور محنت سے اپنوں کی خدمت کرتے ہیں. اپنے بینک بیلنس نہیں بڑھاتے,جائدادیں نہیں بناتے. ملک سے باہر جاکر خود ساختہ جلاوطنی اختیار نہیں کرتے.
" سچے اپنے" اپنوں کے ساتھ,آپ کے
ساتھ, میرے ساتھ جیتے مرتے ہیں. اٹھتے بیٹھتے ہیں. میرے اور آپ کے کام آتے ہیں.کسی ذاتی لالچ کے بنا کسی ذاتی فائدے کی توقع کے بنا.
ہاں البتہ اگر آپ کے اپنے دل میں کھوٹ ہے.آپ کے اپنے دل کا چور آپکو کسی جھوٹی شخصیت, کسی جھوٹے نعرے,کسی ذاتی پسند,کسی کھوکھلے لسانی و نسلی نظریہ کی پرستش میں آپ کو الجھائے ہوئے ہے توپھر اس بار بھی آپ اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے پاوں پر کلھاڑی مارنے کے درپے ہوں گے.
اپنے دل کے چور کو خیرباد کہہ دیجئے.
ایسا موقع بار بار نہیں آتا.اس بار سچے دل سے "سچے اپنوں"کا انتخاب کیجیے. اسی میں آپ کی بھلائی ہے.اسی میں آپ کے بچوں اور آنے والی نسلوں کی خوش نصیبی ہے.اس میں ملک وقوم کی فلاح ہے. اس بار اپنی ذات کے حصار سے باہر نکل کر اجتماعی خوشحالی کو ووٹ دیجیئے.اپنے اپنے حلقوں میں اپنے سچے اپنوں کو منتخب کیجیے. تاکہ اس بار چند سالوں بعد آپ کے منتخب کردہ ھیرو ھیرو ہی رہیں. ھیرو سے زیرو نہ بانیں.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں