ہفتہ، 19 جنوری، 2019

سال نامہ پر ہو تو زرخیز ہے دل

"سال نامہ پر ہو تو زرخیز ہے"
"ڈاکٹر صابر حسین خان"

شاید آپ لوگوں کو یاد ہوگا.کسی کالم یا مضمون میں ذکر کیا تھا. کہ ایک زمانے میں بھی کتابیں چوری کرتا تھا.بچپن کے زمانے میں جب جیب خرچ چار اور آٹھ آنے ملتا تھا.اور کوثر لابئریری سے ملنے والی کتاب کا کرایہ بھی چار آنے ہوتا تھا.ایک کتاب ایک گھنٹے میں میں ختم ہوجاتی تھی.تین کتابوں سے کم پر دل بھرتا نہیں تھا.تو ایک کتاب رجسٹر پر لکھوا کر اور دو عدد انٹی میں دبا کر آجایا کرتا تھا.اور اگلے دن خاموشی سے وہ واپس ایک میں رکھ کر,دوسری دونئی کتابیں اسی طرح لے آتا تھا.
چوری کی ان گنت اقسم ہوتی ہیں. کتابیں چوری کرنے سے لیکر پیسے چرانے تک دل کے چوروں سے لیکر کام چوروں تک کسی بھی چوری کو نہ اچھا سمجھا جاتا ہے اور نہ اچھا کہا جاتا ہے.ھر معاشرے میں, معاشرے کے ھر طبقے میں ھر طرح کی چوری کو برا اور منفی مانا اور گردانا جاتا ہے.ماسوائے ایک چوری کے.
عمر چور لوگ ھر جگہ تعریف و تحین کے کلمات سے نوازے جاتے ہیں.اور ھر مقام پر ہاتھوں ہاتھ لیئے جاتے ہیں.عمر چور خواتین خصوصا ھر محفل میں سراہی جاتی ہیں. عمر چوری,وہ واحد چوری جس کے مرتکب سر اٹھاکر فخرو شان سے زندگی گزارتے ہیں. یہ مقام اور مرتبہ دل کے چوروں کو بھی میسر نہیں آتا کہ اکثر اوقات دل کے چور,دل لگی میں اپنا ہی دل بیٹھتے ہیں.اور پھر تمام عمر پریشان حال پھرتے ہیں.
ھر چور کے دل میں چور ہوتا ہے. کیونکہ اسے کسی نہ کسی شکل میں علم ہوتا ہے
کہ کبھی نہ کبھی اس کی چوری,پکڑی ضرور جائے گی.آج نہیں تو کل یہاں نہیں تو وہاں یہ خوف یہ خدشہ ھر طرح کے چوروں کے ذہنوں میں ہمہ وقت رہتا ہے.لیکن عمر چور خواتین و حضرات اس خوف اور حدشے کا زیادہ شکار رہتے ہیں.بظاھر ان کا چہرہ اور بدن ان کی حقیقی جسمانی عمر کی عکاسی نہیں بھی کرتا,تب بھی ھر وقت ان کو کھٹکا لگا  رہتا ہے کہ سامنے والے ان کی اس چوری کو کہیں پکڑ نہ لیں.
ایسے لوگ عام طور پر اپنی عمر چھپاتے ہیں اور اپنی تاریخ پیدائش کو اکثر محض رکھتے ہیں.اور سالگرہ کی تقریب منانے سے بھی اجتناب برتتے ہیں.اور ھر اس بات,اس کام,اس جگہ,اس موقع سے کنی کتراتے ہیں.جس پر انہیں ذرا سا بھی شبہ ہو کہ اس بات اس کام کی وجہ سے یا اس جگہ یا اس موقع پر انہیں لامحالہ سچی بات کہنی اور بتانی پڑ جائے گی.
سچی بات کہنے اور سننے اور برداشت کرنے کی ہمت بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے.ہم.سب اپنی خامیوں,کمیوں  اور کمزوریوں پر,پردہ ڈال کر رکھنے کے عادی ہوتے ہیں.کیونکہ ہمیں بچپن سے جو تربیت دی جاتی ہے,اس کا اہم جزیہ بھی ہوتا ہے کہ کبھی بھی اپنی کمزوریوں کو کسی کے سامنے نہ لاو.اس ڈر سے ہم خود بھی اپنی کمزوریوں کا سامنا نہیں کر پاتے.اور ان کو اپنے سامنے لا کر ان کو دور کرنے اور ان کا مقابلہ کرنے کی بجائے, انہیں اپنے لاشعور کے اسٹور میں Dump کرتے رہتے ہیں. اور ایک وقت آتا ہے کہ پھر ان کے ڈھیر تلے دبے ہمارے اعصاب خواب دینے لگتے ہیں. اور ہم اپنی کمیوں,کجیوں اور خامیوں کے غلام بن جاتے ہیں.اور وہ ہمیں بہت عزیز اور پیاری لگنے لگتی ہیں.اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرنا دل گردے کا کام ہوتا ہے.اپنی کمزوریوں کو قبول کرکے, آھستہ آھستہ ان سے پیچھا چھڑانا بڑی ہمت,بڑے حوصلے کا متقاضی ہوتا ہے.
لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم وقتا فوقتا اپنے لاشعور کے اسٹور کی صفائی کرتے رہیں.روزانہ ممکن نہ ہو تو ھرہفتے.ھر ہفتے نہ سہی,ھر مھینے.ھر ماہ بھی مشکل ہوتو کم ازکم سال میں ایک بار.اور ایسا کرنے کیلئے سب سے بہترین دن ہماری سالگرہ کا دن ہوتا ہے.یا سال کا آخری دن ہوتا ہے جب ہماری عمر کا ایک سال اور ختم ہوتا ہے. اور نیا سال ہمارے استقبال کیلئے ہماری زندگی کے دروازے ہر دستک دے رہا ہوتا ہے.
ایسے موقع پر ہمیں سالنامہ ترتیب دینا چاہیے.گزرے سال کے تمام واقعات اور تجربات اور مشاہدات کا احاطہ کرنا چاہئے.اہنی غلطیوں.اپنی کوتاھیوں, اپنی کمزوریوں, اپنی کجیوں,اپنی کمیوں,اپنی خامیوں,اپنی لاپرواھیوں,اپنی نادانیوں,اپنی بیوقوفیوں کے گٹھٹر کو کھینچ تان کے اپنے اندر سے باھر لاکر اپنے سامنے رکھنا چاہیے.اور ھر سال کے اختتام پر کم از کم کیسی ایک کمی کو اپنے وجود کا خون پینے سے روک دینا چاہیے.کسی ایک کمزوری کو اپنی شخصیت سے نکال باھر پھینکنا چاہیے.کسی ایک غلطی کا اعتراف  کر کے اس کے بوجھ کو سر سے اتار دینا چاہیے.کسی ایک کجی کو Modify کرکے قابل قبول شکل دے دینی چاہیے کسی ایک خامی کو چھان بین کے دور کرلینا چاہیے.کسی ایک نادانی پر دل کھول کر ھنس لینا چاہیے.کسی ایک بیوقوفی کی تلافی کرلینا چاہیے.کسی ایک کوتاہی پر اپنے کو معاف کردینا چاہیے.
ھر سال کے اختتام پر یا اپنی عمر کے گزرنے پر اگر ہم خود احتسابی کے عمل سے خود کو گزارنے کی عادت اپنا لیں گے.تو ہم نئے سال شعوری کوششوں میں لگ جائیں گے کہ کسی طرح ہم اپنی کتابوں کی چوری کی عادت کو Rectify کرسکتے ہیں.کس طرح دلوں کی چوری میں احتیاط برت سکتے ہیں.کسی طرح اپنے دل کے چور کو پکڑ کر اسے Sideline کرسکتے ہیں.
ہمارا ھر سالنامہ اگر اس نہیج,اس انداز میں ترتیب پانے لگے تو ہمارا بوجھ ازخود کم ہونے لگے گا.اور جب بوجھ کم ہوگا تو ہماری آگے بڑھنے کی رفتار خود بخود بڑھنے لگے گی.ماہانہ یا سالانہ خود احتسابی کا عمل فرد کیلئے بھی مفید ثابت ہوتا ہے.معاشرے اور قوم اور ملک کیلئے بھی مثبت نتائج کا باعث بنتا ہے.بشرطیکہ ہم سب اپنے آپ سے یہ وعدہ لے لیں کہ ہم نے کم ازکم ھر سال کے اختتام پر یا اپنی سالگرہ کے دن,کم از کم اس ایک دن ذرہ برابر جھوٹ نہیں بولنا ہے.نہ اپنے آپ سے,نہ کسی اور سے.پوری دیانت داری اور سچائی سے اپنے آپ کو اپنے اپنے سامنے ٹانگ دینا ہے اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو چیر پھاڑ دینا ہے.اپنے آپ کےپنجے ادھیڑ دینے ہیں.اور اپنے اندر سے ہی اپنی ایک نئی ذات,نئی شخصیت,نئ نفسیات کا پیکر تراشنا ہے.
اپنے ہاتھوں اپنا ہی پوسٹ مارٹم کرنا اور وہ بھی ھر سال کرنا,دنیا کا سب سے مشکل کام ہے.اور وہ بھی اس دن کرنا جو ہمارا جنم دن ہو,یا نئے سال کا پہلا دن ہو,یا رواں سال کا آخری دن ہو.کتنا تکلیف دہ عمل ہے.سالنامہ ہو یا سالگرہ,پوری دنیا خوش اور مسرت میں ڈوبی ہوتی ہے. خوش اور مسرت کی جستجو کررہی ہوتی ہے. ایسے موقع پر اپنی ذات کے بتوں کو توڑ کر کسی نئی صورت کو ابھارنا,کسی کیلئے بھی آسان نہیں.
لیکن یہ حقیقت ہم سب کے علم میں ہے کہ زندگی میں کسی بھی طرح کی کامیابی,آسانی سے نہیں حاصل ہوتی.مگر ایک دوسری حقیقت جس سے ہم واقف ہونے کے باوجود نظریں چراتے ہیں اور اس سے عدم توجہی برتتے ہیں.وہ یہ ہے کہ اپنے سروں پر منوں ٹنوں خامیوں, کجیوں, کوتاھیوں اور غلطیوں کا ڈھیر اٹھا کر ہم کبھی بھی زندگی کے کسی بھی میدان میں کامیابی نہیں حاصل کر سکتے.
چار دن بھی گھر میں جھاڑو پونچھا نہ ہو تو چاروں طرف مٹی کوڑے کے ڈھیر کو دیکھ کر ہماری طبیعت اوبھ جاتی ہے. میلے کپڑوں اور گندےبرتنوں کا انبار جمع ہوتا رہے تو ہمارا جی مالش کرنے لگتا ہے.لیکن ہم 24 گھنٹے,ہفتے کے ساتوں دن, مہینے کے 30 دن اور سال کے 360 دنوں تک اپنے اپنے جھوٹ, اپنے اپنے دل کے چوروں اور اپنی اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کے جھاڑ جھنکار کے ساتھ رہتے,  ہیں اور ہمیں کچھ پتہ نہیں چلتاکہ سال گزرنے کے بعد بھی ہم زندگی میں دو قدم آگے بڑھنا تو درکنار,چار قدم اور پیچھے ہوگئے ہیں.
یاد رکھیئے لاشعور میں جمع کچرا,ہمارے شعور کی توانائی سلب کر لیتا ہے.ہماری توجہ,ہمارے ارتکاز کو دھندلا دیتا ہے .ہمارے فیصلےاور درست وقت پر درست فیصلے کی صلاحیت کو مرجھا دیتا ہے. ہمارے vision اور ہماری Wisdom اور ہماری Imagination کی قوت اور روشنی کو ملیا میٹ کر دیتا ہے.اور ہم ھر سال کے خاتمے پر حالات کے اور بگڑنے اور خراب ہونے کا رونا روتے رہتے ہیں.اپنی کوتاہیوں پر نظر ڈالنے کی بجائے دوسروں کی غلطیوں اور کمزوریوں کا ڈھول پیٹتے رہتے ہیں.
انفرادی سطح پر بھی ہم بدحال رہتے ہیں اور اجتماعی اور معاشرتی سطح پر بھی ھر سال کا اختتام ہمیں نڈھال کرتا چلا جاتا ہے.ہماری چوریاں,ہمارے جھوٹ,ہماری غلطیاں,ہماری کجیاں, ہماری بیوقوفیاں, ہمیں انفرادی,اجتماعی اور معاشرتی ھر سطح پر ذہنی اور نفسیاتی مریض بنا رہی ہیں.ہماری برداشت ختم ہو چکی ہے.غصے اور نفرت سے ہماری آنکھوں میں لالی اور ہونٹوں پر گالی گھول دی ہے.حرص,ہوس اور لالچ نے حلال اور حرام کا فرق مٹا دیا ہے. جذبائیت اور جلدباذی کے لیکڑوں نے صبروشکر کی نرم ملائم گھاس اجاڑدی ہے.
اور ھر سال نامے کی آخری تاریخ کو ترتیب و تدوین دی جانے والی سابقہ سال کی تاریخ میں انفرادی اور قومی زوال اور پراگندگی کے تیزی سے بڑھتےہوئے سیلاب کی داستان رقم ہورہی ہے.
ہم سب اتنے بے حس ہوچکے ہیں.کہ رک کر آئینہ دیکھنا تو بھول چکے ہیں. یہ محاورہ تو ہم سب نے پڑھا اور سنا ہی ہوگا.
It's Better To Be Late Than Never
"کبھی نہ ہونے سے دیر سے ہوجانا بہتر ہوتا ہے.دیر آید درست آید." آئیے رواں سال کے آخری دن,نئے سال کے پہلے دن عزم نو کے ساتھ کدال اٹھائیں اور اپنے اوپر جمے بے حسی کے Shell کو توڑ ڈالیں.اپنا احتساب خود اعتراف کریں.اپنی اصلاح آپ کے Goal کو آج کے سالنامے کے ساتھ مربوط کرکے ایک نئی زندگی کا آغاز کریں. سچی خوشیوں سے بھر پور زندگی.نئی حقیقی اور سچی زندگی کی بنیاد رکھیں. اور اپنی ذات, اپنے معاشرے.اپنی قوم,اپنے ملک کو ایک نیا, پائندہ اور مستحکم آغاذ دیں.اور آج بھی ہم نے ایسا نہ کیا تو اس سال کی طرح اگلا سال بھی ایسا ہی گزر جائے گا اور اگلا سالنامہ,ہمارا اعمال نامہ آج سے ذیادہ بھاری,آج سے ذیادہ تکلیف دہ.آج سے  ذیادہ  دستوار ثابت ہوگا.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں