ہفتہ، 19 جنوری، 2019

گزری کہانی

"گزری کہانی"
                      (29.3.98)
                  "ڈاکٹر صابر حسین خان"
جو تم چاہوا
زندگی یوں بھی گزر سکتی ہے
دید و باذ دید کے بنا
ادھر ادھر کی باتوں میں
قصور اور کہانیوں کے
دو کرداروں کی طرح
اچھے دوستوں کی طرح
زندگی گزاری جا سکتی ہے
اگر تم چاھو
تو اس طرح بھی
تعلق رکھا جا سکتا ہے
لکین پھر یہ سوچ تو
تمہیں اپنے سارے جذبے
ساری شکایتیں
محبت کی ساری حکایتیں
اپنے ہاتھوں چھوڑنی ہوں گی
اپنی آنکھوں میں رقصاں سچائی کر
اپنے خوابوں کے ساتھ
دل میں دفن کرنا ہوگا
اور اپنے ہونٹوں پر
مصنوعی تبسم سجانا ہوگا
جو تم یہ کر سکو
اور کرکے یونھی نبھاسکو
تو مجھے بھی کوئی رنج نہ ہوگا
تمہاری خوشی کے خیال کی خاطر
اپنے دکھ کا احساس نہ ہوگا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں