منگل، 15 جنوری، 2019

نرم گوشے

"نرم گوشے" ڈاکٹر صابر حسین خان

لکھے ہوئے کو بہت کم دوبارہ پڑھنے کا موقع ملتا ہے. بہت کم کسی سوچے سمجھنے منصوبے کے تحت لکھا.نہ ہی کبھی کوئی تحقیق یا تنقیدی مضمون لکھنے کی کوشش کی.کسی ایک حوالے سے جو خیال دل میں پیدا ہوا,اس پر لکھنا شروع کردیا.بہت بار ایسا ہوا کہ ایک خیال سے دوسرا اور دوسرے سے تیسرا خیال آتا گیا.اور مضمون کی مانیئت ازخود بدلتی چلی گئی.ایک موضوع سے دوسرا موضوع لفظوں کی شکل اختیار کرتا گیا.نیلے رنگ کی کہانی پیلے رنگ پر ختم ہوئی.کبھی کئی نشتوں میں تحریر مکمل ہوئی.کبھی وقت,خیال اور لفظوں نے ساتھ دیا تو دوچار گھنٹوں میں ہی معاملہ مک گیا.
یہ طے ہے کہ دل کے بدلتے موسموں کا رنگ ھر مضمون ھر تحریر کے ھر رنگ میں ضرور جھلکا.دل کی کہانیاں ہوں یا ذہنی موشگافیاں یا روحانی سفر کے اسرار جو بھی لکھا,دل سے لکھا,دل والوں کیلئے لکھا.اس لئیے لکھ کر دوبارہ پڑھنے یا کانٹ چھانٹ کرنے کی خواہش نہیں ہوئی.البتہ شائع ہونے کے بعد جب جب اپنی تحریریں دوبارہ شائع شدہ شکل میں پڑھیں تو دو باتیں شدت سے محسوس ہوئی.پہلی مشکل زبان اور اس سے بھی زیادہ مشکل بیان اور دوسری یہ کہ بہت کچھ لکھنے کے باوجود سب کچھ نہیں لکھا جاسکا.کچھ باقی دہ گیا.کچھ اور زاویوں سے بات ہوجاتی تو کچھ اور لوگوں کو سمجھ آجاتی کچھ اور نکات Highlight کردئےجاتے تو موضوع میں جان پڑ جاتی.
حقیقی زندگی میں تو فلاں کردار بڑا Jolly بڑا خوش رنگ ہے.اسے کاغذ پر لاتے لاتے اس کے رنگ کچھ ماند پڑ گئے.اس کی شخصیت کے کچھ پہلو اجاگر نہیں ہوسکے.اس کی زندگی کے کچھ اہم Milestones  تو ادھورے رہ گئے.مگر پھر خیال آتا ہے کہ حقیقی اور فرضی دنیامیں کچھ تو فرق ہوتا ہے. کچھ تو فرق ہونا چاہیے. فکشن میں جب تک تھوڑی Fabrication نہ ہو.تھوڑی Fantacy نہ ہو.تو مزہ بھی نہیں آتا اور قاری کو سنجیدہ وثقیل کردار ہضم بھی نہیں ہوتا.
قاری کو مشکل مان اور مشکل زبان بھی بہ مشکل ہی سمجھ آتی ہے.بہت سی کام کی باتیں, بہت سے لوگ نہیں سمجھ پاتے. بہت سی باتیں بہت سے لوگوں کیلئے ہوتی بھی نہیں. ھر فرد کی دلچسپی کا دائرہ مختلف ہوتا ہے.خصوصا آج کے عھد میں مصروفیات اور دلچسپیوں کی بہتات نے پڑھنے اور پڑھانے کا سلسلہ موقوف کردیا ہے. کیا مشکل کیا آسان کتاب ہو یا کوئی مضمون. کچھ پڑھنے کی ضرورت ہی کیا ہے. اور بات جب اب کے وقتوں میں محض فائدے اور نقصان کی ٹہری ہے.تو دل کی کہانیوں اور دل والوں کی باتوں کو تو پڑھنا وقت کا ضائع ہے.ہاں البتہ باتیں کچھ جوڑ توڑ کی ہوں یا مرچ مصالحوں کی. یا جلتی پر تیل پھینک کے تماشے دیکھنے یا پگڑیاں اچھالنے کی ہوں تو کیا بات ہے.
دل کی کہانیوں میں تو دل جلنے اور دل کڑھنے کے سوا رکھا کیا ہے. یہ دور تو سائنس کا ہے.تحقیق اور تردید کا دور ہے.عقل اور منطق کا دور ہے.گولڈاور ڈالرز کا دور ہے. جو بات ریسرچ سے ثابت نہیں, اسے کیسے مان لیا جائے. حد عقل میں دل کی دلیلوں کا کیاکام.جس کام کے دو پیسے نہ لیں,اس کو کیوں کیا جائے.جس بات سے کچھ حاصل نہ ہو,اس کا کیا فائدہ. علم بھی اتنا ہی اچھا جو چار روپے کمانے میں مدد دے.جو علم روح اور دل کے سفر پر اکسائے اس سے دوری اچھی یہ دور تو مادے کا دور ہے. دل کی باتیں کرنے والے,دل کی کہانیاں کہنے والے,دل سےسوچنے والے,دل پہ چلنےپہ اکسانے والے,سائنس,تحقیق اور مادے کے دور میں بھلا کیسے پنپ سکتے ہیں. زر کے شور میں من کی بات کیونکر سنی جا سکتی ہے.
من کی باتوں کا جب یہ حال ہو تو من چلے کا کیا حال ہوگا.من چلے کا سودا کون خریدے گا.ھر دور کے من چلوں اور دل کے درویشوں کا حال,بے حال ہی رہاہے.دل سے سوچنے والے,دل کی کہنے والے کچھ ایسے خواب دیکھ لیتے ہیں. جن کے طلبگار ڈھونڈنے سے نہیں ملتے. مگر یہ سودائی پھر بھی تمام عمر اپنے خوابوں میں رنگ بھرنے میں گزار دیتے ہیں. بنا مانگے اپنے خوابوں کو بانٹنے میں مصروف رہتے ہیں.
سرسیداحمدخان کے من چلے پن نے علی گڑھ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی اور برصغیر کے مسلمانوں میں جدید تعلیم سکھنے کا جذبہ پیدا کیا.پھر من چلوں کی ایک کھیپ نکلی اور برصغیر کی آزادی کے راستے بننا شروع ہوئے.ڈاکٹر محمد اقبال اور بیرسٹر محمد علی جناح کے دلوں نے عقل اور منطق کی کوئی پرواہ نہ کی .اور اپنے دور کے سب سے بڑے اور اوکھے من چلے قرار پائے.اپنے اپنے دور میں ایسے اوکھے من چلوں کی کمی نہیں ہوتی.کچھ نیوٹن اور آئن اسٹائن بن جاتے ہیں. کبھی کچھ من چلے آبادیاں چھوڑ کر غاروں اور خانقا ہوں میں جاچھپتے ہیں.
کبھی اپنے دل کی پکار پر لبیک کہہ کر کوئی دوا ایجاد یا دریافت کرنے بیٹھ جاتے ہیں.
غرضیکہ اپنے اپنے دور میں ھر دل والے نے دل کی مان کر کسی نئے خیال کی بنیاد رکھی ہے یا کسی خیال کو پروان چڑھایا ہے جسے پہلے کوئی پوچھتا نہیں تھا.
دل کی دنیا کے اپنے قاعدے اپنے اصول اپنے اپنے ضابطے ہوتے ہیں. عام طور پر سودوزیاں سے عادی اور مروجہ سماجی تقاضوں اور حوالوں سے الگ کسی کا دل شاعری کے سمندر میں دوب جاتا ہے.کوئی دل والا موسیقی اور سروں کی اسرار ڈھونڈنے نکل جاتا ہے. تو کوئی تصویروں کو بنا بنا کر اپنا آپ ڈھونڈتا ہے.
من کی نگری کے باسی ذرا اوکھے ذرا اوکھری ہوتے ہیں. ان کے سروں پر سینگ نہیں ہوتے لکین ان کے دلوں کا اضطراب انہیں جاگتے میں خواب دیکھنے اور پھر ان خوابوں میں رنگ بھرنے پر مستقل اکساتا رہتا ہے. گرتے پڑتے من چلے,چلتے رہتے ہیں. ان کے خواب اور خوابوں کے رنگ دوسروں کی زندگی میں رنگ بھرتے رہتے ہیں اور یہ رنگ چراغ چلاتے رہتے ہیں.
ہماری زندگی کی رونقیں اور روشنیاں, آرام اور سکھ چین کے پیچھے ایسے ہی دل والوں اور من چلوں کی زندگی بھر کی محنت اور لگن اور ولولہ چھپا ہوا ہے.میں جو یہ تحریر آج لکھ رہا ہوں آپ سب کیلئے دل سے,تو دل کی بات کو لفظوں کی شکل میں ڈھالنایونہی خود بخود آپ ہی آپ نہیں آگیا.بچپن سے اب تک جانے کتنے دل والوں اور من چلوں کے دلوں کی کہانیاں پڑھنے,سننے,دیکھنے کے بعد جو دو چار باتیں دل میں بیٹھیں انہی کے سہارے قلم کا کاغذ سے رشتہ بندھا اور خوابوں کے رنگ آپ سب کے دلوں کیلئے خیالوں میں ڈھالنا شروع ہوئے.اس یقین کے ساتھ کہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی دل میں ایسے چراغ جلیں گے جن کی روشنی اور دور تک پہنچ سکے گی.اور کچھ اور لوگوں کی شخصیت اور نفسیات میں دل و روح کے ایسے نرم گوشے پیدا ہوں گے. جو کچھ اور لوگوں کے لئیے دل کے چین کا سبب بن سکیں گے.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں